بنیاد

( بُنْیاد )
{ بُن + یاد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں غواصی کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بُنْیادیں [بُن + یا + دیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بُنْیادوں [بُن + یا + دوں (واؤ مجہول)]
١ - اصل جڑ۔
"یہ لحاظ اصل و بنیاد اگر دیکھا جائے تو ہر عمر کے درخت سے عمدہ تخم پیدا ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ٤٣٠ )
٢ - کسی عمارت وغیرہ کا وہ حصہ جو زمین کے اندر ہوتا ہے، نیو۔
"جب تک اس چٹان پر بنیاد قائم نہ ہو گی عمارت مستحکم نہیں ہوسکتی۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٥٠:٣ )
٣ - آغاز، بنا، ابتدا۔
 کہ بنیاد میں تھی اول یوننگی شرم ڈھانپ کر میں کیا اس چنگی      ( ١٦٣٦ء، طوطی نامہ، غواصی، ٥٩ )
٤ - [ مجازا ] عمارت، مکان، گھر۔
 بتواس خانۂ دل پر نہ دست انداز ہو دیکھو تمہارے ہاتھ خاک آوے گا اس بنیاد کو توڑے    ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٢٤٧:١ )
٥ - نشان، آثار۔
 اے سیل اشک تو ذرا نقش پا کو دیکھ جاتی رہے نہ دہر سے بنیاد رفتگاں    ( ١٧٧٢ء، دیوان فغاں، ١١٦ )
٦ - بنا، اصلی سبب، اساسی وجہ۔
 یہ مجھ میں شرافت جو نظر آتی ہے بنیاد ہے اس کی ناتوانی میری      ( ١٩٣٧ء، جنون و حکمت، ٤٠ )
٧ - [ کنایۃ ]  حقیقت، بساط، طاقت۔
 عرش ہل جاتا ہے دل کی آہ سے اے فلک تو کیا تری بنیاد کیا      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بےنظیر، ١٨ )
٨ - اثاثہ، پونجی۔
 بنیاد جو کچھ تھی سب گنوائی تب خود وہ کھلاڑ میرے آئی      ( ١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ٥ )
٩ - طینت، فطرت۔
"حیا عورت کی نہاد ہو گئی، وفا عورت کی بنیاد ہو گئی۔"      ( ١٩٠١ء، راقم، عقد ثریا، ١٦ )
  • foundation
  • basis
  • base;  resource
  • power