اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - اصل جڑ۔
"یہ لحاظ اصل و بنیاد اگر دیکھا جائے تو ہر عمر کے درخت سے عمدہ تخم پیدا ہوتے ہیں۔"
( ١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ٤٣٠ )
٢ - کسی عمارت وغیرہ کا وہ حصہ جو زمین کے اندر ہوتا ہے، نیو۔
"جب تک اس چٹان پر بنیاد قائم نہ ہو گی عمارت مستحکم نہیں ہوسکتی۔"
( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٥٠:٣ )
٣ - آغاز، بنا، ابتدا۔
کہ بنیاد میں تھی اول یوننگی شرم ڈھانپ کر میں کیا اس چنگی
( ١٦٣٦ء، طوطی نامہ، غواصی، ٥٩ )
٤ - [ مجازا ] عمارت، مکان، گھر۔
بتواس خانۂ دل پر نہ دست انداز ہو دیکھو تمہارے ہاتھ خاک آوے گا اس بنیاد کو توڑے
( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٢٤٧:١ )
٥ - نشان، آثار۔
اے سیل اشک تو ذرا نقش پا کو دیکھ جاتی رہے نہ دہر سے بنیاد رفتگاں
( ١٧٧٢ء، دیوان فغاں، ١١٦ )
٦ - بنا، اصلی سبب، اساسی وجہ۔
یہ مجھ میں شرافت جو نظر آتی ہے بنیاد ہے اس کی ناتوانی میری
( ١٩٣٧ء، جنون و حکمت، ٤٠ )
٧ - [ کنایۃ ] حقیقت، بساط، طاقت۔
عرش ہل جاتا ہے دل کی آہ سے اے فلک تو کیا تری بنیاد کیا
( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بےنظیر، ١٨ )
٨ - اثاثہ، پونجی۔
بنیاد جو کچھ تھی سب گنوائی تب خود وہ کھلاڑ میرے آئی
( ١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ٥ )
٩ - طینت، فطرت۔
"حیا عورت کی نہاد ہو گئی، وفا عورت کی بنیاد ہو گئی۔"
( ١٩٠١ء، راقم، عقد ثریا، ١٦ )