طول

( طُول )
{ طُول }
( عربی )

تفصیلات


طال  طُول

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٢٠ء کو "دیوان زادہ قاسم" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - طویل، لمبا، دراز (قصہ، داستان وغیرہ) (مختصر کی ضد)۔
 کہاں تک سنو گے مری داستان نہیں طول تو مختصر بھی نہیں    ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٢٤٥ )
٢ - لمبا (قد میں)۔
 بلند ایسا تھا قدِّ طول اوس کا کہ جا کر آسماں کے پاس پہنچا    ( ١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، ٧٩٢:٢ )
٣ - بڑا (عمر میں)۔
 ولیکن ایک لونڈی عمر میں طول ضیعف و ناتواں وزار و مجہول      ( ١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، ٣٨٩:٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - درازی، طوالت (اختصار کا نقیض)
"فرمایا کرتے تھے کہ نماز کا طول اور خطبہ کا اختصار آدمی کے تفقہ کی دلیل ہے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢١٥:٢ )
٢ - فاصلہ، دوری۔
 آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرم عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!      ( ١٩٦٩ء، لا ۔ انسان، ٥٧ )
٣ - لمبائی (عرض کا مقابل)۔
"مستطیل کے لمبے ضلعوں میں سے ہر ایک کی لمبائی کو طول . کہتے ہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، ریاضی، چوتھی جماعت کے لیے، ١١٨ )
٤ - لمبا کرنا، بڑھانا، مسلسل کیے جانا (بیان وغیرہ)۔
 ملے تو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی عجیب چیز ہے یہ طول مدعا کے لیے      ( ١٩٠٥ء، داغ (مہذب اللغات)۔ )
٥ - (داستان، خط وغیرہ کا) یکساں بیان ہوئے جانا، مسلسل جاری رہنا۔
 طول رودادِ غم، معاذ اللہ عمر گزری ہے مختصر کرتے      ( ١٩٤١ء، فانی بدایوانی، کلیات، ٢٢٣ )
٦ - [ جغرافیہ ]  کسی مقام سے وہ فاصلہ مراد ہے جو کسی نصف النہار خاص سے لیا جائے۔ آج کل خاص نصف النہار گرینچ واقع انگلیڈ مقرر ہے۔ پس جو مقام رصد گاہ گرینچ سے جانب مشرق ہو اس کا طول طول مشرقی اور جو جانب مغرب ہو اس کا طول طول مغربی کہلاتا ہے۔ (مہذب اللغات؛ فرہنگ آصفیہ)
  • long
  • tall;  extended
  • prolonged
  • lasting long