گردوں

( گَرْدُوں )
{ گَر + دُوں }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی مصدر 'گردانیدن' سے فعل امر 'گرداں' میں 'ا' مبدل بہ 'و' بڑھانے سے 'گردوں" بنا۔ فارسی سے اردو میں ساخت اور مفہوم کے اعتبار سے من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - آسمان، فلک، چرخ۔
 گردوں کو اونچائی بخشی اور ترازو قائم کی انسانوں میں پورا پورار تولنے کی خو قائم کی      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٧٤ )
٢ - چھکڑا، بیل گاڑی، رتھ، بہلی۔
"ایک گردوں پر سوار کر کے اس جاناب روانہ کر دیا۔"      ( ١٩٣٩ء، آئین اکبری (ترجمہ)، ٤١٤:٣ )
٣ - وہ گاڑی جس پر چھوٹی توپ رکھی جاتی ہے۔
"میں نے اونٹوں کے گردوں (چھوٹی توپ) سے سلامی کی آوازیں سنیں۔"      ( ١٨٩١ء، قصہ حاجی بابا اصفہانی، ٣٠٨ )
٤ - چرخی، پہیا، جرثقیل کے ایک آلہ کا نام۔ (فرہنگ آصفیہ)
  • A wheel;  the heavens
  • the firmament
  • the celestial globe or sphere;  chance
  • fortune (and her revolving wheel;  an engine (for pulling up trees by the roots);  a windlass;  a chariot
  • chaise;  a child's go-cart (by which he learns to walk)