گرمی

( گَرْمی )
{ گَر + می }
( فارسی )

تفصیلات


گَرَم  گَرْمی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'گرم' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت و نسبت لگانے سے 'گرمی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : گَرْمِیاں [گَر + مِیاں]
جمع غیر ندائی   : گَرْمِیوں [گَر + مِیوں (و مجہول)]
١ - حرارت، تپش، حدت، تمازت۔
 بجا ہے روح کا پھل ہے محبت یہ پھل پکتا ہے گرمی سے بدن کی      ( ١٩٨٣ء، سلیم احمد، اکائی، ٣٩ )
٢ - آگ جیسا اثر، جلن، سوزش۔
"اس چراغ سے اتنی گرمی پیدا ہوتی ہے کہ کھانا پک جاتا ہے۔"      ( ١٩٩٢ء، نگار، کراچی، دسمبر، ٧٤ )
٣ - موسم گرما، گرمی کی رت۔
"گرمیوں کے موسم میں ہم جہاں سے گزرتے چمیلی، موتیا اور بیلے کی خوشبوؤں سے گلی کوچے مہکے ہوتے۔"      ( ١٩٨٣ء، سلیم احمد، اکائی، ١٢ )
٤ - شدت تپاک، گرمی الفت، محبت کا جوش۔
"غالب ہوں یا اقبال دونوں کے یہاں عشق ایک ہنگامہ، حیات، سوزوساز، رونق اور گرمی کا موجب ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، میر، غالب اور اقبال تقابلی، مطالعہ، ٥٩ )
٥ - شوخی، طراری، تیزی۔
 حوروں میں یہ گرمی نہ لگاوٹ یہ پری میں بے دم کیا لاکھوں کو اسی عشوہ گری میں      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٢٠:٢ )
٦ - تیزی، تندی۔
 ابتری، وحشت، تزلزل، طنطنہ، دہشت، فساد دبدبے، گرمی، کشاکش، دغدغے، ہلچل، جہاد      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٣٦ )
٧ - سیلان الرحم، لیکوریا (عورتوں کو ہونے والی ایک بیماری)۔
"بدنصیب غریب رنڈیاں جو گرمی کی بیماری میں مبتلا ہو کر بھنک بھنک کر جان دیتی ہیں۔"      ( ١٨٩٦ء، شاہد رعنا، ١٩٦ )
٨ - آتشک، سوزاک۔ (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات)
٩ - غصہ، ناراضگی۔
 اچھی نہیں یہ گرمیاں عاشق سے اے فلک فریاد کر نہ بیٹھے کوئی دل جلا ہوا      ( ١٩٠٥ء، دیوان انجم، ٥ )
١٠ - گھوڑے کی ایک بیماری جس میں گرمی کے سبب گھوڑا کھانے پر رغبت نہیں کرتا تشنگی بہت بڑھ جاتی ہے اور پیشاب کبھی زرد کبھی خون آمیز اور تھوڑا تھوڑا ہوتا ہے اور گھوڑے کے گوشۂ چشم سے اس بیماری کا حال معلوم ہوتا ہے، اس کو تاؤ کھانا بھی کہتے ہیں۔
"علاج گرمی کے مارے ہوئے گھوڑے کا۔"      ( ١٨٤٥ء، مجمع الفنون، ٣٠ )
١١ - رونق، لطف انگیزی۔
"یہ سب یاروں کے لطیفے ہیں جو گرمی محفل کے لیے تصنیف کر لیے گئے ہیں۔"      ( ١٩٠٥ء، مقالات شبلی، ٨٤:٥ )
١٢ - شباب، خواہش نفسانی، گرمی دانوں اور چھوٹی چھوٹی پھنسیوں سے بھی مراد ہوتی ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
١ - گرمی کرنا
گرمی بڑھانا، حدت کا زیادہ کرنا، بدن میں گرمی بڑھا دینا۔"گھبرایا کہا کیوں صاحب اس شراب نے بڑی گرمی کی۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٣٥١:٣ )
شوخی کرنا، شرارت کرنا، ناز و نخرے کرنا، لگاوٹ کرنا، گرم جوشی دکھانا۔ گرمیاں کرنے میں کیا شرم و حیا تھی شب وصل شمع کیوں تم نے بجھا دی اوسے جلنے دیتے      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ١٣٠ )
جوش بڑھانا، ولولہ پیدا کرنا۔ ہم جانتے تھے خوباں گرمی کریں گے مل کر دل سرد ہوگیا ہے جب سے پڑا ہے پالا      ( ١٧١٨ء، دیوان آبرو، ٧ )
غصہ کرنا، ناراضگی کرنا۔ وو گرمی کرے توں سوں سردی سوں ٹال وو سردی کرے تو تو گرمی سو جال      ( ١٥٦٤ء، حسن شوقی، دیوان، ٨١ )
سرگرم اختلاط ہونا، ربط ضبط بڑھانا۔ بھول جائیگی عدو سے گرمیاں کرنی انہیں میری آہ سرد میں پیدا اثر ہونے تو دو      ( ١٩٠٠ء، نظم دل افروز، ٢٣٩ )
  • Heat
  • warmth;  warm or hot weather
  • the hot season;  warmth
  • glow;  fervour
  • fervency
  • ardour;  activity
  • briskness
  • throng (of a market);  heat of temperament;  heat of system
  • morbid heat;  fieriness
  • vehemence;  passion
  • rage
  • anger
  • excitement;  attachment
  • warm affection;  sexual passion
  • lust;  heat;  the venereal disease.