صنعت

( صَنْعَت )
{ صَن + عَت }
( عربی )

تفصیلات


صنع  صَنْعَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : صَنْعَتیں [صَن + عَتیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : صَنائِع [صَنا + ئِع]
جمع غیر ندائی   : صَنْعَتوں [صَن +عَتوں (و مجہول)]
١ - پیشہ، ہنر، دستکاری۔
"زراعت وہاں کی سب سے بڑی صنعت تھی۔"    ( ١٩٦٦ء، شہرِ نگاراں، ٦٣ )
٢ - مہارت، فنی کمال، نکتہ آفرینی۔
 کہو بہزاد و مانی سے کہ چشم غور سے دیکھیں نمائش صنعت و ایجاد کا دلکش مرقع ہے    ( ١٩٢٨ء، سرتاجِ سخن، ٨٨ )
٣ - خدائے تعالٰی کا کمالِ تخلیق (جس میں طرح طرح کے حسن اور راز مضمر ہیں)۔
"یہ ظاہری اسباب نگاہوں کے پردے ہیں کیونکہ ہر آنکھ اس کی صنعت کو نہیں دیکھ سکتی۔"    ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٥٨:٣ )
٤ - بنائی ہوئی چیز، مصنوعی شے، مصنوعات۔
 نقوشِ کیفِ دل کو صنعت دستی سے کیا نسبت ادب اے واصفِ مانی کہ میں نقاش فطرت ہوں      ( ١٩٢٠ء، فردوسِ تخیل، ١٦١ )
٥ - (بدیع) وہ لفظی یا معنوی خوبی جو مقرر طریقوں سے کلام میں پیدا کی جائے، (معانی) کلام کا وہ حسن جو تشبیہ، استعارہ، مجاز یا کنایے سے پیدا ہو۔
"اسباب وجوہ آرایش کو اصطلاح میں صنت (جمع ضایع) کہتے ہیں۔"      ( ١٩٨٥ء، البدیع، ٤١ )
٦ - سجاوٹ، کاریگری، حسن کاری، نکتہ آفرینی۔
 صنعت پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام ہاں سادگی سے آئیو اپنی نہ باز تو    ( ١٨٩٢ء، دیوانِ حالی، ١٨ )
٧ - غیر حقیقی ہونا، مصنوعی ہونا۔
"لیکن بعد میں زمانہ خود بتا دیتا ہے کہ حقیقت و صنعت میں کیا فرق ہے۔"    ( ١٩٣٤ء، ہمدرد صحت، دہلی، جولائی، ٦٩ )
  • Profession
  • trade
  • art
  • make
  • workmanship
  • manufacture
  • fabrication
  • work of art
  • machine
  • engine;  mystery
  • miracle