چال

( چال )
{ چال }
( سنسکرت )

تفصیلات


چل  چال

سنسکرت زبان کے لفظ 'چل' سے ماخوذ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : چالیں [چا + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : چالوں [چا + لوں (واؤ مجہول)]
١ - چلنے رینگنے یا گھٹنے کا فعل یا طرز، رفتار۔
چلنے کے وقت زید کی طرف . چال کی حرکت کا تعلق . ذات (نفس یا روح) سے نہیں بلکہ اس کے بدن سے ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، مناطر احسن، عبقات (ترجمہ)، ١٨٤ )
٢ - بےارادہ حرکت جو بالطبع یا کشش یا دیگر مادی اسباب (حرات وغیرہ) سے پیدا ہو (بجائے خود ہو یا کسی سمت میں ہو)۔
"قلب کے تاثرات کے تناسب سے نبض کی چال. بدل جایا کرتی ہے"      ( ١٩٣٢ء، رسالہ نبض، ٨ )
٣ - رَوشِ، رویہ، طور و طریق، وضع، ڈھنگ۔
"اس زمانے کی چال یہ ہے کہ کتاب کو کسی بڑے نامی گرامی شخص کے نام سے معنون کرتے ہیں"    ( ١٩١١ء، نشاط عمر، ١ )
٤ - رواج، دستور۔
 برخلاف شرع جو ہیں رسم و چال سوبیاں کرتا ہوں بے وہم و خیال    ( ١٨٤٧ء، حارق الاشرار، ٥ )
٥ - اطوار، کردار۔
 تم اپنی چال بے بدنام ہوگئے ناظم یہ اہل صومعہ چھپ چھپ کے کیا نہیں کرتے      ( ١٨٦٥ء، ناظم، نواب یوسف علی خان گل کدہ، ٣٠٦ )
٦ - ذریعہ، وسیلہ، را؛ طریقہ؛ ترکیب؛ تدبیر۔
"اون کے لازم تھا کہ . کل یورپ میں اپنی سو فسطائیانہ چالوں سے ایک عام تحریک پھیلاتے"      ( ١٨٩٣ء، بست سالہ عہد حکومت، ٥٥ )
٧ - فریب، دھوکا۔
"آخر اسے ایک چال سوجھی"      ( ١٩٠٤ء، خالد، ٤١ )
٨ - شطرنج یا چوسرو غیرہ میں کھلاڑی کا مہرے وغیرہ کو ایک گھر سے دوسرے گھر میں لے جانے یا اپنے دانوں پر تاش کا پتا ڈالنے کا عمل؛ دانو؛ بازی۔
 الٹنے کو ہے مدعی کی بساط بس اب دوسری چال میں مات ہے      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٩٦ )
٩ - عمارت؛ سلسلہ مکان۔
"یہ صاحب جے جے ہسپتال کے سامنے نئی چال میں سفیر کابل . کے پاس مقیم ہیں"      ( ١٩٠٧ء، سفر نامہ ہندوستان، ٣٨ )
١٠ - (زین سازی) گھوڑے کے ساز کا وہ حصہ جو اس کی کمر پر کسا جاتا ہے۔ بنگلہ، رس میں بھارکس، چڑیا، چنگی اور دمچی شامل ہوتی ہیں۔ (اصطلاحات پیشہ وراں 41:5)
١١ - [ قدیم ]  مسلک، طور طریق؛سنت۔
 درود تج اپر ہو تیر آل پر صحابیاں پر تج ہور ترے چال پر      ( ١٦٣٨ء، چندر بدن و مہیار، ٧٩ )
١٢ - (ماہی گیری) بھاگن اور بھوڑ کی قسم کی بہت چھوٹی ذات کی مچھلی جس کا پیٹ سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 57:3)
١٣ - راستہ۔
 خدائی کے انکھیاں سوں دیکھیاں ایتال عنایت منجے کر تیری گھر کی چال      ( ١٦٨٧ء، یوسف زلیخا، ہاشمی، ٨ )
١٤ - فیشن، طرز، وضع، چلن، رواج۔
"زمانے اور وقت کے ساتھ فیشن تو بدلتے ہیں لیکن واپس آپ نے کبھی غور کیا کہ ہر دس پانچ برس میں وہی چال آجاتی ہے"      ( ١٩٨١ء، اخبار خواتین، کراچی، نومبر، ١٦ )
١٥ - سرخ و سفید ملے جلے بالوں والا چکور کی رنگت کا گھوڑا۔
"موٹے جسم مع دم وایال سفیدی و سرخی آمیز ہو وہی چال ہے۔"      ( ١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ٤٤:٢ )
١٦ - (طبیعیات) رفتار؛ ہوا میں گزرنے کا وقت۔
"اگر کبھی جسم کو چار سیر کی قوت سے پھینکیں اور اس میں دس فیٹ کی چال پیدا ہو تو آٹھ سیر کی قوت سے پھینکنے پر بیس فیٹ کی چال ضرور پیدا ہو گی۔"      ( ١٩٢١ء، القمر، ٦ )
١٧ - پہچان۔
"شجاعت معرفت کی چال ہے"      ( ١٥٠٠ء، معراج العاشقین، ١٩ )