عشق

( عِشْق )
{ عِشْق }
( عربی )

تفصیلات


عشق  عِشْق

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - شدید جذبۂ محبت، گہری چاہت، محبت، پریم، پیار۔
 ناز برداری کوئی آساں نہیں میں نے ناحق عشق کا دعویٰ کیا      ( ١٩٨٣ء، حصار انا، ١١٩ )
٢ - [ تصوف ]  حُبِ مفرط اور کشش معشوق اور حب معشوق اور مرتبۂ وحدت کو کہتے ہیں اس کے پانچ درجے ہیں : درجہ اول فقدانِ دل یعنی دل کا گم کرنا، درجۂ دوم تاسف کہ جس میں عاشق بیدل بغیر معشوق کے ہر وقت اپنی زندگی سے متاسف ہوتا ہے، درجۂ سوم وجد اس کی وجہ سے عاشق کو اپنی جگہ اور کسی وقت آرام اور قرار نصیب ہی نہیں ہوتا، درجہ چہارم بے صبری، درجہ پنجم صیانت، عاشق اس درجے میں پہنچ کر دیوانہ ہو جاتا ہے، بجز معشوق کے اور کسی کی یاد نہیں ہوتی، عشقِ حقیقی۔ (مصباح التعرف، 176)
٣ - [ طب ]  ایک طرح کا جنون و سودا جو صورت آدمی کو دیکھنے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
٤ - شوق، آرزو۔
 ہوا جو عشقِ ثنائے ابوتراب مجھے خدا نے کر دیا ذرے سے آفتاب مجھے      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٩٥:٤ )
٥ - عادت، لت، دھت، ٹھرک۔ (فرہنگ آصفیہ)
٦ - سلام، آدابِ عرض۔
 یاں غش ہیں شوقِ طوف میں یارانِ کعبہ کو اے نامہ بر تو کہیو یہ پیغام اور عشق      ( ١٨١٨ء، انشاء، کلیات، ٧٤ )
  • Love
  • excessive love
  • passion (for)