ماتم

( ماتَم )
{ ما + تَم }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : ماتَموں [ما + تَموں (و مجہول)]
١ - مرنے کا غم، سوگ، مجلس عزا، جہاں لوگ غم منانے کو جمع ہوں۔
 ماتم شہر نگاراں سے کہیں بہتر ہے اور کچھ دیر رہو محو دعا رات گئے      ( ١٩٨٨ء، آنگن میں سمندر، ٨٩ )
٢ - گریہ وزاری، نوحہ، کہرام۔
"موجودہ زبوں حالی کا ماتم ہے اور مستقبل میں تابناک اور روشن منزل تک پہنچنے کی راہِ عمل دکھائی گئی ہے۔"      ( ١٩٩٣ء، اردو نامہ، لاہور، جولائی، ٢٣ )
٣ - غم، رنج، حزن و الم۔
 دے گئی ہو آہ، جس کو رنج بے حد آرزو جس کے سینے میں بپا ہو ماتم صد آرزو    ( ١٩١٤ء، نقوش مانی، ١٢ )
٤ - افسوس، سرپیٹنا۔
"آپ کی تنگ نظری یا اپنی بدقسمتی کا ماتم کروں اور کیا کر سکتا ہوں۔"    ( ١٩٣٥ء، یوسف عزیز، مکاتیب، ٩٥ )
٥ - شہدائے کربلا کی عزاداری میں چھاتی پیٹنا، سینہ کوبی۔
"جب کوئی مر جاتا ہے تو اعزا و احباب جمع ہوتے ہیں اور سخت ماتم کیا جاتا ہے۔"    ( ١٩٩٢ء، نگار، کراچی، دسمبر، ١٩٨ )
٦ - عورتوں کا کسی کارِ خیر یا شر میں اجتماع۔ (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ)۔
  • grief
  • mourning