مراد

( مُراد )
{ مُراد }
( عربی )

تفصیلات


رود  مُراد

عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٠٣ء کو "مثنوی نوسرہار (اردو ادب، ستمبر، ١٩٥٧)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : مُرادیں [مُرا + دیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : مُرادوں [مُرا + دوں (و مجہول)]
١ - وہ جس کی خواہش یا ارادہ کیا گیا ہو، وہ چیز جس کا ارادہ کیا گیا ہو، مقصود۔
"اسی طرح مراد (یعنی جس چیز کا ارادہ کیا گیا ہو) . اس کا صرور بھی اپنے اسباب سے وجوباً ہی ہو گا۔"      ( ١٩٥٦ء، مناظر احسن گیلانی، عبقات (ترجمہ)، ٢٤٧ )
٢ - مطلب، غرض، منشا، مقصد نیز مفہوم، معنی۔
"فلسفۂ حیات سے مراد وہ زاویۂ نظر اور زندگی کے بارے میں وہ رویہ ہے جس کے تحت . ناول نویس قلم اٹھاتا ہے۔"      ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتخ پوری، حیات و خدمات، ٤٤٠:٢ )
٣ - خواہش، تمنا، آرزو، حاجت۔
"خدا اسی طرح ہر کسی کی مراد پوری کرے۔"      ( ١٩٧٨ء، براہوی لوک کہانیاں، ١٨٧ )
٤ - [ عور ]  منت؛ نذر؛ قسم؛ ایک اسم خاص۔ (پلیٹس؛ نوراللغات)
٥ - [ تصوف ] وہ شخص جس نے جاذبۂ الٰہی کے بعد درویشی اور سلوک اختیار کیا ہو اور مردی وہ شخص ہے جو سلوک کے بعد جذب کے مرتبے کو پہنچا ہو۔ (جامع اللغات)
٦ - [ تصوف ] مراد، عبارت ایسے شخص سے ہے جو اپنے ارادوں سے نکل گیا ہو اور مراد اس کی محبوب حقیقی ہو اور اس کے خصائص سے ہے کہ شدائد میں شاکی نہ ہو اور کسی چیز اور کسی کسی حال کا مشتاق و متمنی نہ ہو اپنے احوال میں اور اگر ہو تو محبّ نہیں ہے۔ (مصباح التعرف)۔
  • what is willed
  • or wished
  • or intended
  • or meant