قطع

( قَطْع )
{ قَطْع }
( عربی )

تفصیلات


قطع  قَطْع

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو "کلیاتِ سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع   : قَطْعات [قَط + عات]
جمع غیر ندائی   : قَطْعوں [قَط + عوں (و مجہول)]
١ - کاٹنا، تراشنا، برید کرنا۔
"شہزادہ کا سر بازار میں قطع کیا جائے۔"      ( ١٩١٥ء، شبنمستان کا قطرہ گوہریں، ١٠٨ )
٢ - انقطاع کا عمل یا منقطع ہونا، ختم ہونا، چھوٹنا۔
"اس (نظام المشائخ) کی اشاعت مختار مسعود جیسے علم دوست کے ہاتھوں قطع ہوئی جو ان دونوں کراچی کے کمشنر تھے۔"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٣٨ )
٣ - مسافت طے کرنے کا عمل۔
"وہ پاؤں جس سے تو نے . بیت المقدس اور عرب کو قطع کیا۔"      ( ١٩٤٢ء، حیات شبلی، ٤٧١ )
٤ - ڈھنگ، طرز، ڈول، وضع۔
"تو وہ ہے ہی بندر کی قطع تو کوئی کیا کرے، بھابھو اماں۔"    ( ١٩٥٥ء، آبلہ دِل کا، ١٢ )
٥ - عموماً لباس وغیرہ کی) وضع، تراش، کاٹ، کٹ، انداز۔
"لباس کی قطع اور وضع درست ہونی بہت بڑی نشانی تربیت یافتہ ہونے کی ہے۔"    ( ١٨٧٦ء، تہذیب الاخلاق، ٥٤:٢ )
٦ - زمین کا ٹکڑا، قطعۂ زمین۔
"سڑک کے ساتھ ساتھ گھاس کے قطعوں اور پھولوں کی وجہ سے . باغ معلوم ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، قومی زبان کراچی، نومبر،١٢ )
٧ - [ عروض ]  یہ زحاف عروض اور ضرب کے واسطے مخصوص ہے۔ ایسے مقامات پر جو رکن واقع ہو اور اس کے رکن کے آخر میں وتر مجموع ہو تو اس کے ساکن کو گرا دینا اور اس کے پیشتر والے حرف متحرک کو ساکن کر دینا مگر شرط ہے کہ اس وتر مجموع کے بعد پھر کوئی جزو نہ ہو۔
"ہر جگہ فعلن بالزحاف پڑھا جائے گا اسے علم عروض کی اصطلاح میں قطع کہتے ہیں۔"      ( ١٩٤٦ء، قصیدۃ البردہ، (ترجمہ)، ٣٢ )
٨ - [ تصوف ]  ترک الم کو کہتے ہیں جو علائق اور عوائق سے ہو۔ (مصباح التعرف)
  • cutting;  intersection;  a segment;  traversing or passing over (a road);  cut
  • shape
  • form
  • make
  • fashion;  stamp;  model