اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ بستہ خون جو ہر جان دار کے پہلو میں ہوتا ہے اور خون کا مخزن کہلاتا ہے، اعضائے رئیسہ میں سے ایک عضو کا نام، کلیجا (کلیجی)۔
"دل و دماغ اور جگر و گردہ اپنی اپنی جگہ پر بن جاتے ہیں پھر کہیں سے اس میں روح آجاتی ہے۔"
( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٦:٣ )
٢ - [ مجازا ] دل، ہیا، چت، مَن۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
( ١٨٨٨ء، صنم خانہ عشق، ٢٢٧ )
٣ - جان، جی، پران۔
کہ وہ شاہزادۂ حسین علی جگر مصطفٰی ہور عین علی
( ١٦٨١ء، جنگ نامہ سیوک، ٤٥ )
٤ - (کسی چیز کا) اندرونی حصہ؛ مغز، گودا، ست، جوہر۔
"الائچیان، چکنی ڈلی، بن، لیکن جگر تک یک رنگ، بھنے ہوئے۔"
( ١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نااہل پڑوسی، ٥ )
٥ - بیچوں بیچ، وسط، مرکزی، حصّہ۔
"غریب سہار نپور میرا ہے اور اس کے جگر میں مجھکو طالب علمی کے دن گزارنے کا موقع ملا ہے۔"
( ١٩١٩ء، آپ بیتی، ١٠٥ )
٦ - چہیتا، پیارا، بیٹا وغیرہ، دلارا، لاڈلا، عزیز۔
جان و دل سے نہ تصدق رہے کیوں خلق خدا جگر صاحب لولاک نما ہیں دونوں
( ١٨٧٠ء، چمنستان جوش (احمد حسن خان)، ٩٠ )
٧ - [ مجازا ] ہمت، حوصلہ، مجال، تاب، برداشت۔
"تمہارا ہی جگر تھا کہ . ایسے الفاظ استعمال کر بیٹھے۔"
( ١٩٥٦ء، حکمائے اسلام، ٣٣٩:٢ )
١ - جگر پر چھریاں چلنا
نہایت بے چین ہونا، بہت پریشان ہونا، سخت رنج و غم ہونا، سخت اذیت گزرنا۔ یاڈ جگر پر چل گئیں چھریاں کسی مشتاق کے واں خبر یہ بھی نہیں ناز و ادا نے کیا کیا
( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٥٥ )
٢ - جگر پر داغ کھانا
بہت زیادہ غم اٹھانا۔ کہ خور بھی دیکھ جس کو تھر تھرایا جگر ہر ماہ نے بھی داغ کھایا
( ١٨٩٧ء، عشق نامہ، فگار، ٥ )
٣ - جگر پھٹ جانا
بے حد ملال ہونا۔ جگر کا خون ہو گیا یہ چھوٹ کھا کے پھٹ گیا کچھ ایسی سانس اکھڑ گئی کہ دم بھی پلٹ گیا
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، نیرنگ خیال، ٣٥ )
رشک و حسد سے جلنا۔ تنہا نہ منہ کو دیکھ جگر گل کا پھٹ گیا قد کی بھی شان دیکھ کے ہر سرو کٹ گیا
( ١٨٣٠ء، کلیات نظیر، ٢ )
کلیجہ شق ہو جانا۔ پھٹ نہ گیا کیوں ترا ظالم جگر ڈوب مری کیوں نہ تو اے خیرہ سر
( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ٦٠ )
٤ - جگر ٹکڑے ہونا
کلیجا پاش پاش ہونا، غم وغیرہ کی شدت سے صدمہ ہونا۔ ایک قطرے ہوا ناسخ مرا ٹکڑے جگر ہادہ گلگوں فراق یار میں زہر آب ہے
( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ٩٨:١ )
٥ - جگر اچھلنا
جگر پر صدمہ ہونا، خوف طاری ہونا، دل پریشان ہونا۔۔ برق چمکے گی جو فرقت میں تو اچھلے گا جگر دل بھر آئے گا جو آئے گی گھٹا ساون کی
( ١٨٨٤ء، کلیات قدر، ٣١٣ )
٦ - جگر الٹ دینا
کلیجا الٹ پلٹ کر دینا، دل دہلا دینا، گھبرا دینا، تباہ کر دینا۔ وہ سہانی رہے بجتی تری نوبت شب و روز کہ جگر دشمنوں کا دویں ٹکوریں ہی اُلٹ
( ١٨١٨ء، کلیات انشا، ٢٥١ )
٧ - جگر آب ہونا
ہمت ٹوٹ جانا۔ لرزہ چڑھا ہر ایک جگر آب ہوگیا مقتل تمام معدنِ سیماب ہوگیا
( ١٨٤٤ء، عروج سخن، ٣٢٩ )
٨ - جگر پاش پاش ہونا
(رنج و غم وغیرہ سے) کلیجے کے ٹکڑے ہونا، بہت زیادہ صدمہ ہونا۔ اے ذوق جانتا ہے وہ ہمدرد میرا درد دل جس کا پارہ پارہ جگر پاش پاش ہے
( ١٨٥٤ء، دیوان ذوق، ١٨٩ )
٩ - جگر پتھر کرنا
دل کڑا کرلینا، شدت سے ضبط کرنا۔ تری گلی سے جب ہم عزم سفر کریں گے ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے
( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٢٩٤ )
١٠ - جگر پر پتھر رکھ لینا
انتہائی ضبط سے کام لینا، دل کڑا کر لینا، صبر کر لینا۔ اب نہ وہ حسرت وصل اور نہ وہ شکوہ ہجر اے بتو رکھ لیا ہم نے بھی جگر پر پتھر
( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٩٨ )
١١ - جگر ٹھنڈا ہونا
کلیجہ ٹھنڈا ہونا، سکون و آرام ملنا، تسکین ہونا، اطمینان ہونا۔ جو اشک ایذ رسا ہیں چشم ترکی عین راحت ہے کہ خون دل پئیں اطفال ٹھنڈا ہو جگر ماں کا
( ١٨٧٨ء، سخن بے مثال، ١١ )
١٢ - جگر خون کرنا
دلی صدمہ پہنچنانا، ہمت توڑ دینا۔ بہار آئی ہے، جھولے دامن گل چیں، کہا گل نے جگر خوں کر دیا صیاد کا نالوں سے بلبل نے
( ١٨٥٤ء، غنچہ آرزو، ١٥٤ )
١٣ - جگر پانی ہونا
ہمت ٹوٹ جانا۔"بلکہ بہتیروں کے جگر پانی ہو کر بہہ گئے۔"
( ١٨٠١ء، آرائش محفل، حیدری، ١٦٦ )
بہت زیادہ صدمہ ہونا، بڑا گہرا اثر ہونا۔ کس بلا کی یہ صدا تھی کہ جگر پانی ہے دوڑنا، خیر نہیں، ہائے کہیں دل ٹوٹا
( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ٦٦ )