دل

( دِل )
{ دِل }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ فارسی سے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٢٦٥ء کو "بابا فرید گنج شکر کے ہاں بحوالہ "اردو کی ابتدائی نشودنما میں صوفیائے کرام کا کام" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دِلوں [دِلوں (و مجہول)]
١ - سینے کے اندر قدرے بائیں جانب الٹے پان سے ملتی ہوئی شکل کا ایک عضو جس کی حرکت پر خون کی گردش کا مدار ہے، یہ مرکب ہے گوشت و عصب و لیف و غشاء سخت سے اور سرچشمہ ہے حرارت غریزی اور روح حیوانی کا، اسی کی حرکت کے بند ہونے سے موت واقع ہو جاتی ہے، قلب۔
"دل، صدری کہفہ میں پھیپھڑوں کے خانوں کے درمیان کی جگہ . میں قدرے بائیں جانب واقع ہوتا ہے۔ یہ شکل میں تکونا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، معیاری حیوانیات، ٢٤٢:١ )
٢ - خاطر، ضمیر، باطن، جی، قلب۔
 امید اس ذات اقدس کی بدولت دلوں میں سوز آنکھوں میں نمی ہے      ( ١٩٨٤ء، مرے آقا، ٦٣ )
٣ - دھیان، توجہ، خیال۔
 میہمان ہوتے نہیں جس روز آپ ہر جگہ جاتا ہے سو سو بار دل      ( ١٨٩٢ء، وحید الٰہ آبادی، انتخاب وحید، ٧٩ )
٤ - حوصلہ، ہمت، جرات، شجاعت، دلیری۔
 تیر پر تیر پڑیں اف نہ زباں سے نکلے وہ کلیجا ہے ترا اور یہ ہے دل میرا
٥ - احساس، جذبات۔
"جس دل سے تم کو رخصت کر رہی ہوں وہ بیٹی والوں کے دل جان سکتے ہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٣٦ )
٦ - ذہن، دماغ، تخیل۔
 رہ گیا مٹ کے وہ ایک حرف غلط کی صورت دل نے جو نقش ابھارا تری صورت کے سوا
٧ - درمیان، وسط۔
 قید ہو کتنے ہی پردوں کے حرم میں سورج صبح پھوٹے کی بہر حال دل مشرق سے      ( ١٩٧٩ء، جزیرہ، ١٠٨ )
٨ - سخاوت، فیاضی۔
"اس عمر میں وہ دل ہے کہ میں نے اتنی عمر میں دیکھا نہیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، )
٩ - مرضی، خواہش، رغبت
 مار ڈالا اس ادا نے منہ بنانے کی تری کیوں دیا بوسہ اگر دینے کو تیرا دل نہ تھا      ( ١٧٩٥ء، دل عظیم آبادی، دیوان، ١٣ )
١٠ - مزاج، طبیعت۔
 مرا دل، میری طبیعت کوئی لائے گا کہاں سے نہ میں کارواں میں گم ہوں نہ الگ ہوں کارواں سے      ( ١٩٧٩ء، جزیرہ، ١٢٤ )
١١ - مرکز، محور، مرجع۔
 اے مسلماں ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر سیکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ١٥٧ )
١٢ - [ تصوف ]  لطیفۂ زبانی اور روحانی کو کہتے ہیں اور اسی کو حقیقت انسانی بھی کہتے ہیں کہ جو مدرک اور عالم اور عاشق اور عارف اور مخاطب اور معاتب ہے جس شخص نے کہ دل کو پایا اس نے حق کو پایا اور بعض لوگ منظر باری بھی کہتے ہیں۔ (مصباح التعرف، 118)
١ - دل چلنا
رغبت ہونا، خواہش ہونا، طبیعت مائل ہونا۔"بڑھیا کا طور دیکھو آج ذرا دل چلا گرہ سے پیسہ کھلا۔"      ( ١٩٠١ء، راقم، عقد ثریا، ٨٢ )
٢ - دل چیر کر دکھانا
دل کا راز ظاہر کرنا، دل کی بات بتانا؛ یقین دلانا۔ دکھا دوں چیر کے دل اور دل کہوں کب تک زبان پہ کیوں یہ تقاضائے ناگوار رہے      ( ١٩٥٧ء، یاس یگانہ، گنجینہ، ٨٣ )
٣ - دِل چھلنی ہونا
سخت تکلیف پہنچنا، شدید صدمہ ہونا، اذیت میں مبتلا ہونا۔"رنڈی بننے کے طعنے سنتے سنتے دل چھلنی ہوگیا۔"      ( ١٩٢٩ء، بہار عیش، ٥٧ )
٤ - دل چھوٹا کرنا
ہمت ہارنا، آزردہ ہونا۔"جو کوئی کہتا ہے جھک مارتا ہے، تم کیوں اپنا دل جھوٹا کرتی ہو۔"      ( ١٩٢١ء، ہالہ، ١٧٧ )
٥ - دل چھوٹ جانا | چھوٹنا
ہمت ٹوٹ جانا، ناامید ہونا، عاجز آنا۔"اس وقت چونکہ میرا دل چھوٹا سا جاتا ہے، اس لیے آپ کی اجازت چاہتا ہوں۔"      ( ١٩٣٢ء، ریاست (ترجمہ)، ٢٩٢ )
٦ - دل (کو) چھیدنا
دل میں زخم ڈالنا؛ عاشق بنا لینا۔ ناوک فگن وہ ہوگئے مشہور مفت میں دو ایک دلوں کو چھید کے تیر نظر سے      ( ١٩١٥ء، جان سخن، ١١٥ )
٧ - دل اٹکنا
گہرا لگاءو پیدا ہونا، عشق ہونا، محبت ہونا۔ باز آئے کوئی جور سے یا دل ہی اٹکے اور سے تاثیر تجھ میں اے دعا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں      ( ١٩١٧ء، طوفان نوح، ٧٥ )
خیال لگا ہونا، طبیعت کا مائل ہونا۔"طرح طرح کی سرگرمیوں میں دل اٹکا ہوا اور علاقوں اور رابطوں کی گرانیوں سے بوجھل تھا۔"      ( ١٩٤٢ء، غبار خاطر، ٥٧ )
خیال بٹا ہونا۔"دل تو کھیل میں اٹکا ہے سبق کون یاد کرے۔"      ( ١٩٦٨ء، مہذب اللغات، ٥٢:٥ )
٨ - دل اٹھنا لینا
قطع تعلق کرنا۔ دل تھام کر اٹھا میں تو بولا وہ طنز سے اچھا ہوا کہ تم نے دل اپنا اٹھا لیا      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٣٣ )
٩ - دل اٹھ جانا | اٹھنا
جی اچاٹ ہونا، برداشتہ خاطر ہو جانا۔"بس کالج سے دل اٹھتا ہی جا رہا ہے"      ( ١٩٥٢ء، زیر لب، ٣٦ )
سیرو تفریح کو دل چاہنا، دل میں امنگ پیدا کرنا۔ ناتوانی سے غم ہجر کی ایسے بیٹھے اوٹھے دنیا سے مگر دل نہ ہمارا اوٹھا      ( ١٨٥٢ء، دیوان برق، ٦٦ )
١٠ - دل اجاڑنا
جی افسردہ کرنا، مایوس کرنا، غمگین کرنا۔ دل رلانے سے جلانے سے اجاڑا یار نے کیا کہوں کس کس خرابی سے خرابا ہوگیا      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان، ٢٠ )
١١ - دل اچاٹ رہنا
جی نہ لگنا، دل بے زار رہنا۔"علوم درسی سے اکثر دل اچاٹ رہتا تھا۔"      ( ١٩١٠ء، آزاد، نگارستانِ فارس، ١١١ )
١٢ - دل اچاٹ کرنا
دل برداشتہ کر دینا، دل بے زار کر دینا، اکتا دینا۔"ابا جان ماشا وکلاّ مجھے آپ کے ترکہ کی پروا نہ تھی مگر میری جبریہ شادی نے دنیا سے میرا دل اچاٹ کر دیا۔"      ( ١٩٢٩ء، تمغہ شیطانی، ٧٩ )
١٣ - دل اچاٹ ہونا
جی اکتانا، دل نہ لگنا، دل بے زار ہونا، گھبرا جانا۔"اکثر کا دل دو چار دن بعد تعلیم سے اچاٹ ہو جاتا تھا۔"      ( ١٩٤٠ء، ہم اور وہ، ٦٨ )
١٤ - دل اچھلنا
خوف یا مسرت یا کسی اور جذبے کے اثر سے دل کی حرکت کا تیز ہو جانا، دل زور زور سے دھڑکنا۔"جب کسانوں کو ایک لمحہ کے لیے اپنی زندگی کامیاب معلوم دیتی ہے. فخر سے ان کا دل اچھلنے لگتا ہے۔"      ( ١٩٣٣ء، میرے بہترین افسانے، ١٢٠ )
١٥ - دل اختیار میں ہونا
دل قابو میں ہونا۔ نہ ترک ہوتی ہے الفت نہ مرتا ہوں نہ اختیار میں دل ہے نہ اختیار میں روح      ( ١٩٢٨ء، گلزار تعشق، ٩ )
١٦ - دل بہلانا
دل کی تسکیں دینا، تشنی کا سامان کرنا، غم بھول جانے کی کوشش کرنا، تفریح طبع کے لیے مشغلہ اختیار کرنا۔"وہ (گوری) لڑکیوں کی طرح کبھی گڑیوں سے دل بہلانا پسند نہ کرتی۔"      ( ١٩٨٦ء، جنگ، کراچی، ٢٩ اگست، ٨١١١ )
خوش طبعی کا سامان مہیا کرنا، کسی کا رنج بٹانے کی کوشش کرنا، کسی کا دل خوش کرنا؛ وحشت دور کرنا۔"میں اپنی بیٹی جاودان اور بیٹے روشن خیال کو لیے صدر کی سڑکوں پر ان کا دل بہلا رہا تھا۔"      ( ١٩٨١ء، تشنگی کا سفر، ٦ )
١٧ - دل بیٹھا جانا
آزردہ خاطر ہونا، دل شکستہ ہونا، مایوسی و ناامید ہونا۔"یہاں تو بیوی کی جان کے لالے پڑے ہیں، ان کی چیخوں سے دل بیٹھا جا رہا ہے اور یہ بی صاحبہ فرماتی ہیں گھبراتے کیوں ہو۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٢:٧ )
١٨ - دل آباد ہونا
دل خوش ہونا، شاد ہونا۔ دل ہو آباد زیادہ ہو بہار عارض کہ مسلمانوں کی بستی ہے دیار عارض      ( ١٨٩١ء، تعشق، دیوان، ١٢ )
١٩ - دل آب آب ہونا
دل میں گداز یا رقت کی کیفیت پیدا ہونا، دل نرم ہو جانا، دل بھر آنا۔"پچھلا افتحارنامہ پا کر دل آب آب ہوگیا۔"
دل پر رعب اور خوف طاری ہونا، حوصلہ پست ہو جانا۔"ان کے دل تو گنبد پر نظر پڑتے ہی آب آب ہوگئے۔"      ( ١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفرنامہ، حیدر، ١٢٢ )
٢٠ - دل آجانا
کسی سے محبت ہو جانا، دل کحا کسی طرف مائل ہو جانا۔ کیا کروں کیوں کر رکوں ناصح رکا جاتا ہے دل پیش کیا چلتی ہے اس سے جس پر آجاتا ہے دل      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٨٥ )
٢١ - دل باغ باغ کرنا
بہت زیادہ خوش کر دینا، خوشی سے مالا مال کر دینا، سرور و انبساط سے بھر دینا۔"ارحم الراحمین! تونے. بیسیوں دل باغ باغ کر دیئے۔"      ( ١٩١٧ء، طوفان حیات، ٤ )
٢٢ - دل باغ ہونا
دل خوش ہونا، فرحت حاصل ہونا۔ گھوڑے کا ساز دیکھو کے دل باغ ہوگئے طاءوس رشک سے ہمہ تن داغ ہوگئے      ( ١٨٨٥ء، عشق لکھنوی (مہذب اللغات) )
٢٣ - دل اڑا جانا
پریشانی یا وحشت کا غلبہ ہونا، اضطراب طاری ہونا، جی گھبرانا۔"آج بارھوں دن ہے کہ آپ کے داماد بخار میں لوتھ پڑے ہیں، دل اڑا جاتا ہے ہوش ٹھکانے نہیں۔"      ( ١٩٢٧ء، گلدستہ عید، ٢٧ )
حیرت یا رعب طاری ہونا۔"احتیاط جمع تاریخ میں نہیں کی گئی جس قدر جمع احادیث میں. کتب حدیث کی ضخامتیں دیکھ کر دل ہے کہ اڑا جاتا ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٧٧:٣ )
٢٤ - دل اڑ چلنا
دل قابو سے باہر ہو جانا۔ کنگھی جو زلف میں کی دل اوڑ چلا نکل کر کہتے ہیں وہ سحر نے کھویا شکار مرا      ( ١٨٥٧ء، سحر (مان علی)، ریاض سحر، ١٩ )
٢٥ - دل اکھڑنا
بد دل ہو جانا، کسی بات یا کام سے دل ہٹ جانا، جی اچاٹ ہونا۔"لیکن اب میرا دل اس کام سے اکھڑ چکا تھا۔"      ( ١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفرنامہ حیدر، ٨٣ )
٢٦ - دل امنڈنا
دل بھر آنا، رقت طاری ہونا۔ غم بھی ہے بے وارثوں کو ظالموں کا خوف بھی دل امنڈتا ہے مگر آنسو نکل سکتے نہیں      ( ١٩٥١ء، آرزو لکھنوی، صحیفہ الہام، ١٦ )
٢٧ - دل آباد کرنا
دل خوش کرنا، شاد کرنا"اس کی محبت نے اس کی بیٹی کا دل آباد کر دیا تھا۔"      ( ١٩٨٣ء، ڈنگو (ترجمہ)، ١٤٠ )
٢٨ - دل باندھنا
دل لگانا، محبت کرنا، عاشق ہونا۔"آتش شوق نے اس سرزمیں کے ہر ذرے پہ ایک دل باندھا۔"      ( ١٩٧٥ء، ہمہ یاراں دوزخ، ٤٤٠ )
ارادہ کرنا، مائل ہونا۔ بھاگ جانے پہ جو دل فوج گراں نے باندھا کس کے کمروں کو ہر اک پیرو جواں نے باندھا      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٧٩:٣ )
دل کو مائل کر لینا۔ ترے جوڑے کے کھلنے نے مرا دل داستاں باندھنا عجب تقدیر نے عقدہ وہاں کھولا یہاں باندھا      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٧٧ )
٢٩ - دل بجھا دینا
افسردہ خاطر کر دینا، اداس کر دینا، ہمت توڑ دینا۔ اب وہ ہجوم شوق کی سرمستیاں کہاں مایوسی فراق نے دل ہی بجھا دیا      ( ١٩١٢ء، کلیات حسرت موہانی، ٧ )
٣٠ - دل بدگمان ہونا
کسی کی طرف سے دل کو کھٹکا ہونا۔ یہ بدگمان ہے دل اس نگوڑے نٹ کھٹ کا لگایا میں نے جو سرمہ موئے کا دل کھٹکا      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، دیوان، ١٢٢:١ )
٣١ - دب بدلنا
عقیدے یا خیال میں تبدیلی آنا۔ عزیزوں کی اعانت گم بزرگوں کا ادب رخصت جو دل بدلا تو سب بدلا خدا رخصت تو سب رخصت      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٣٧٠:١ )
٣٢ - دل برا کرنا
ناراض کرنا، ناخوش کرنا، جی کھٹا کرنا، رنجیدہ کرنا۔"تم چپکے سو جاءو چلتے چلاتے میرا دل برا نہ کرو۔"      ( ١٩٦١ء، ہالہ، ١١٩ )
ناراض ہونا، رنجیدہ ہونا۔ نہ جانوں کہ کیا آیا مجھ تھے گناہ جو مجھ تھے برا دل کیا ہے بی شاہ      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٦٤٤ )
٣٣ - دل برا ہونا
رنجیدہ خاطر ہونا، ناراض ہونا، جی کھٹا ہونا۔ بروں کی بازت کہوں تجھ سے جان معصومی اگر یہ دل ترا مجھ سے برا نہ ہو جائے      ( ١٩٥٥ء، دو نیم، ٩٢ )
قے ہونا، متلی ہونا، گھبراہٹ ہونا۔ (ماخوذ: نور اللغات؛ مہذب اللغات)
٣٤ - دل بڑھانا
ہمت بڑھانا، حوصلہ دلانا، دلبر بنانا۔ لگتا نہیں کہ انطنی اپنے کو بھول جائے ہاں کیوں نہیں اگر کلو پطرہ بھی دل بڑھائے      ( ١٩٨٤ء، قہر عشق، ٢٥ )
٣٥ - دل بس میں ہونا
دل قابو میں ہونا۔ فغان و آہ ہے کیا حکم ہو تو سانس نہ لوں مرا دل آپ کے بس میں ہے اختیار میں روح      ( ١٨٩١ء، تعشق، دیوان، ٩ )