دوست

( دوسْت )
{ دوسْت (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دوسْتوں [دوس (و مجہول) + توں (و مجہول)]
١ - وہ شخص جس کی محبت اور خیر خواہی قابل اعتبار ہو یا جس کی سچی خیر خواہی و محبت کی جائے جس کے ساتھ میل جول رسم و راہ، ملاقات ہو، (دشمن کا نقیض)
"ہنستے جاؤ، ہنستے جاؤ ہمارے دوست نے سرجھکا کر کہا۔"      ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ١٤١ )
٢ - ہمدم، ہم نشین، ہم جلیس، رفیق، انیس۔
 زیست کب تک ساتھ دے گی دل کہاں تک جائے گا آرزو ئے دوست اب دامن نہ پھیلائے بہت      ( ١٩٧٩ء، دریا آخر دریا ہے، ٧٨ )
٣ - محبوب، مطلوب ساجن، جس کے ساتھ دلی لگاؤ ہو؛ کسی شے یا علم کا شیدائی۔
"وہ لوگ تمام علوم میں تعلیم پاتے تھے، فلسفے کے بڑے دوست تھے۔"      ( ١٨٩٨ء، سرسید، تہذیب الاخلاق، ١٥٥:٢ )
٤ - [ تصوف ]  شیفتۂ، محبت الٰہی کو کہتے ہیں۔ (مصباح التعرف)
٥ - لاحقۂ، لفظ کا دوسرا جزو، اسم فاعل ترکیبی کے طور پر۔
 میں بہررنگ وفا کوش رضا دوست رہا میں بہر حال محبت کا اشارا سمجھا      ( ١٩٦١ء، ہادی، صدائے دل، ١٢ )
  • A friend
  • one beloved;  a lover
  • a sweetheart.