دانا

( دانا )
{ دا + نا }
( فارسی )

تفصیلات


دانستن  دان  دانا

فارسی مصدر 'دانستن' سے صیغہ امر 'دان' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے 'دانا' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : داناؤں [دا + نا + اوں (و مجہول)]
١ - جاننے والا، عالم، باخبر۔
"تیرا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے۔ جس کی چاہتا ہے کم کر دیتا ہے، وہ اپنے بندوں کے حال کا دانا اور بینا ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرت النبیۖ، ٤١٨:٣ )
٢ - عقل مند، دانش، ہوشیار، زیرک۔۔
 عشق ہے روگ کہا تھا ہم نے آپ نے لیکن مانا بھی عشق میں جی سے جاتے دیکھے انشا جیسے دانا بھی      ( ١٩٧٨ء، ابن انشا، دل وحشی، ١١٢ )
٣ - تجربہ کار؛ آزمودہ کار؛ عمر رسیدہ؛ جہاں دیدہ۔
"ایک بڑا دانا حکیم ہے اس سے تیرا علاج بھی ہو جائے گا۔"      ( ١٩٨٠ء، وارث، ٣٦٠ )
٤ - سیانا، بالغ، سمجھ دار۔
"وہ گو یا اور دانا ہو کے پندرہ برس کی عمر میں مر گیا۔"      ( ١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٢٨٠ )
٥ - [ تصوف ]  مریدِ صادق، سالک جو راہ حق میں قدم مضبوط اور ثابت رکھے۔ (مصباح التعرف، 115)
  • wise
  • learned;  a wise man
  • a sage