محفوظ

( مَحْفُوظ )
{ مَح (فتحہ م مجہول) + فُوظ }
( عربی )

تفصیلات


حفظ  حِفاظَت  مَحْفُوظ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'صفت' ہے۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء، کو "سب رس" میں مستعمل ہوا۔

صفت ذاتی ( واحد )
جنسِ مخالف   : مَحْفُوظَہ [مَح (فتحہ م مجہول) +فُو + ظَہ]
١ - حفاظت کیا گیا، خطرے یا نقصان سے بچایا گیا، مامون۔
"نیاز صاحب کی عظمت. کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ محفوظ بھی کیا۔"      ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری: حیات و خدمات، ٤٤٦:٢ )
٢ - حفاظت سے یا سنبھال کر رکھا ہوا۔
"تاریخ اپنے اوراق میں ان کو محفوظ کر لے گی اور آنے والی نسلوں پر واضح کرے گی۔"      ( ١٩٩٢ء، اردو نامہ، لاہور، دسمبر، ٣٥ )
٣ - [ مجازا ]  راسخ، درست، صحیح۔
"یہ روایت محفوظ نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ ریشم پہنتے تھے۔"      ( ١٩٦٣ء، ثقافت، لاہور، جولائی، ٥١ )
٤ - وہ جو حافظے میں موجود رہے، حفظ، یاد۔
"اس نے حساب کو صرف ایک مرتبہ کہیں دیکھ لیا تھا اور ایک مرتبہ دیکھنے میں اس کو اس قدر محفوظ ہو گیا تھا کہ کہیں غلطی نہیں کرتا تھا۔"      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ٦٥ )
٥ - [ مجازا ]  مضبوط، مستحکم۔
 پکارتے رہے محفوظ کشتیوں والے میں ڈوبتا ہوا دریا کے پار اتر بھی گیا      ( ١٩٧٨ء، جاناں جاناں، ١٦٠ )
٦ - کسی کے لیے مختص کیا ہوا، خاص طور پر محفوظ۔
"فسٹ کلاس کے پورے کے پورے محفوظ ڈبے سے پہلے روز بے اترا۔"      ( ١٩٦٢ء، آفت کا ٹکڑا، ٣٦١ )
٧ - [ حشریات ]  موجودہ استعمال سے کسی اور مقصد کے لیے بچا کر رکھا ہوا، اپنے کام کے علاوہ کسی دوسرے کا کام انجام دینے والا۔
"کم پردار اور ناپردار افراد محفوظ یا معاون بارور افراد ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٦٧ء، بنیادی حشریات، ٩٤ )
٨ - [ تصوف ]  وہ شخص جس کو اللہ تعالٰی نے اپنی مخالفت سے بچایا اور اس کا قصد اور فعل اور ارادہ عین حق کا قصد اور فعل اور ارادہ ہے۔ (مصباح التعرف)