صفت ذاتی
١ - گیلا، بھیگا ہوا، نم۔
"آپ بے اختیار روئے یہاں تک کہ روتے روتے محاسن مبارک تر ہو گئے۔"
( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٣٩٢:٢ )
٢ - [ مجازا ] سمندر، دنیا کا وہ حصہ جس پر پانی ہے (خشکی کے ساتھ مستعمل)۔
سعد ہور امیہ کی نیں تھی خبر نہیں دیکھے تھے کوئی زخشکی و تر
( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، (ق)، ٨٢٣ )
٣ - شاداب، تروتازہ۔
راستے میں مرد کے ڈالے گئے تیغ و تبر اور عورت کی طرف پھینکے گئے گلبرگ تر
( ١٩٣٢ء، فکرو نشاط، ١٠٨ )
٤ - آب دار، شگفتہ، مزہ دار (شعر وغیرہ)، رسیلا، تازہ۔
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مرصع ترکی صورت
( ١٨٧٣ء، مراۃ الغیب، ١٠٥ )
٥ - مرغن، خوب چکنا، گھی میں تربتر (کھانے اور مٹھائیاں وغیرہ)۔
کیا کیجیئے تر نوالوں کا موسم نہیں رہا چپکے ہوئے ہیں یار کے رخسار آج کل
( ١٩١٣ء، دیوان پروین، ٤٩ )
٦ - آلودہ، لتھڑا ہوا، ڈوبا ہوا۔
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
( ١٨٦٩ء، غالب دیوان، ١٥٢ )
٧ - ملائم، ڈھیلا، کشادہ، فراخ، جیسے تر آستین، ترجوتا وغیرہ؛ بھرا پرا، مالدار، دولت مند، خوش حال (نوراللغات؛ جامع اللغات؛ شبد ساگر)
٨ - (لاحقہ) صفت میں مقابلۃً زیادتی کرنے کے لئے، بہت۔
"آئندہ چل کر یہ معلوم ہو گا یہ مسئلہ ایک عام تر مسئلہ کی صرف ایک مخصوص صورت ہے۔"
( ١٩٣٧ء، علم ہندسۂ نظری، ١٨٦ )