سرد

( سَرْد )
{ سَرْد }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ٹھنڈا، خنک (گرم کی ضد)۔
 یہ سرد سرد ہوا موسم زمستاں کی یہ عہد گل، یہ فضا گلشن و بیاباں کی      ( ١٩٢٢ء، مطلع انوار، ٢٦ )
٢ - جس میں شعلۂ نور یا حدت نہ ہو۔
"وہ سرد، بے پرواہ، خودپسند، مغرور دیار غیر کہی۔"      ( ١٩٨٧ء، گردش رنگ چمن، ٥٧٤ )
٣ - بے جوش و خروش، ولولے سے خالی۔
 منجمند برف زدہ، سرد بدن ملتے ہیں نکہت و رنگ سے محروم چمن ملتے ہیں    ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٧٦ )
٤ - افسردہ، غمگین۔
 تم نے جلا کے کر دیا دل مرا زندگی سے سرد ایک نہ آنا لاکھ ظلم، ایک جدائی لاکھ درد    ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ١٦ )
٥ - نامرد، ڈھیلا، سست۔ (فرہنگ آصفیہ)۔
٦ - مندا، دھیما، بے رونق۔
 گرمی مہر و لطف کا آیا ہے وقت کب جب سرد قہر و جور کا بازار ہو چکا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٥ )
٧ - مرا ہوا، مردہ، بے جان۔
 کیوں اس قدر ہے صاحب محمل کو اضطراب شاید کوئی ہوا پس محمل تڑپ کے سرد      ( ١٨٩٢ء، وحید، انتخاب وحید، ٥٢ )
٨ - (کلام کے لیے) پھیکا بے لطف، بے مزہ۔
 غزل کا ہر شعر گرم تر ہے، کلام رشک آتش و شرر ہے یہ صحبت مہر کا اثر ہے کہ سرد اس کا سخن نہ دیکھا      ( ١٨٦٧ء، رشک (مہذب اللغات) )
  • cool
  • cold;  damp
  • moist