خشک

( خُشْک )
{ خُشْک }
( فارسی )

تفصیلات


اوستائی زبان کے لفظ 'ہسک' سے فارسی میں 'خشک' بنا۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا۔ ایک امکان یہ ہے کہ سنسکرت کے لفظ 'ششک' سے بھی ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور صفت اور گا ہے بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ترکی کی ضد، سوکھا۔
"ندی نالے . میدان پار کرنے سے پہلے ہی خشک ہو جاتے ہیں"    ( ١٩٨١ء، سفر نصیب، ١٩ )
٢ - [ طب ] مزاج کے اعتبار سے تائیر یارد عمل۔
"علاج میں سارا کھیل چاروں طبقوں گرم، سرد، خشک اور تر کے تناسب کا ہے"    ( ١٩٣٦ء، تاریخ، فلسفۂ اسلام، ١١٨ )
٣ - بے لطف، بے مزا، غیر دلچسپ۔
"علم زبان کے بارے میں ہمارے یہاں عام طور پر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ یہ ایک نہایت خشک علم ہے"    ( ١٩٥٦ء، زبان اور علم، ٤ )
٤ - ایسے نصابی مضامین جن میں لطافت کا پہلو نہ ہو لیکن جن کا معالعہ ضروری ہو۔
"برخلاف اس کے خشک مضامینن، خشک کتابیں . امتحان کی ضرورت کی وجہ سے بار بار طوعاً و کرباً پڑھتے رہنا . ناگوار اور ناپسندیدہ عمل ہے"    ( ١٩٠٧ء، مخزن، جولائی، ٢٤ )
٥ - بغیر خوراک کے (تنخواہ کے لیے مخصوص)
"امان کی ظاہری وضع، لباس اور ہاتھ گلے کے زیور سے اتنا قیاس ہو سکتا تھا کہ چار روپیہ مہینہ خشک، اس سے یہ ٹھاٹ نہیں ہو سکتا"      ( ١٩٠٠ء، ذاتِ شریف، ١٩ )
٦ - روکھی، بغیر سالن یا دوسرے لوازمات کے (روٹی)۔
"صفار بستر سے اٹھ بیٹھا اور تلوار خشک روٹی اور پیاز منگا کر اس سے کہا . یہ تلوار میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرے گی"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ اسلام، ١٩٢:٣ )
٧ - وہ آدمی جو ہنسی مذاق سے متنفر ہو، جسے دنیوی تفریحوں کا شوق نہ ہو، روکھا، کج خلق۔
"شاہد احمد ایک خشک اور حد سے زیادہ سنجیدہ بزرگ تھے"    ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٤٩ )
٨ - غیر متواضع، کنجوس۔
"ہمارے ساتھی نے کہاں کہ بمقابلہ جناب مرزا صاحب شیرازی مرحوم کے یہ زیادہ خشک ہیں حقہ، سگار، چائے وغیرہ سے مدارات نہیں کرتے"    ( ١٩١٢ء، روزنامچہ سیاست، ٥٥:١ )
٩ - وہ جس سے فائدہ نہ ہو، بے ثمر۔
"خشک کاروبار کس قدر دشوار معلوم ہوتے ہیں مگر کرنے پڑتے ہیں"      ( ١٩٣٠ء، مس غبریں، ٣ )
١٠ - [ مجازا ]  اداس، غمگین۔
 خزاں ہے دور تو ناحق ابھی سے نہ ہو اے عندلیب نعرہ زن خشک      ( ١٨٧١ء، نظم ارجمند، ١٤٩ )
متعلق فعل
١ - جو دل سے نہ ہو، اوپری دل سے۔
 پسینہ تک نہیں آتا تو ایسی خشک تو بہ کیا ندامت وہ کہ دشمن کو ترس آجائے دشمن پر      ( ١٩٢٧ء، آیات وجدانی، ١٨١ )
٢ - جھلسا ہوا، سوکھا، مرجھایا ہوا۔
"درخت باغوں میں خوب پھول پھل لائے حالانکہ قحط سے خشک ہو گئے تھے"      ( ١٨٨٧ء، خیابان آفرینش، ٩ )
٣ - ٹھیک ہونا، اچھا ہونا، مندمل ہونا (زخم وغیرہ کا)۔
"مجھ کو اشتیاق ہوا کہ اول میں جا کر دیکھوں شکر ہے کہ وقت پر پہنچی سرکار کو اٹھالائی علاج کیا اب زخم خشک ہو جائے گا"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ١٨٩:٣ )
٤ - صرف، فقط۔
"اردو میں تصنیف و تالیف سے . خشک شہرت کے علاوہ اور کچھ نہیں مل سکتا"      ( ١٩٨٤ء، گردراہ، ١٤٨ )