بند

( بَنْد )
{ بَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان کے مصدر 'بستن' کا حاصل مصدر ہے، اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - رُکا ہوا، مسدود۔
 اے چشم تر ٹھہر بھی کہ خط یار کو لکھوں بارش میں نامہ بر کی ہے پہروں سے راہ بند      ( ١٨٨٨ء صنم خانۂ عشق، ٧٧ )
٢ - معطل، ناکارہ
"یہ نہر ایک مدت سے بند پڑی ہے۔"      ( ١٨٧٠ء رسالہ علم جغرافیہ، ١٣:٣ )
٣ - (مقابلے میں) چپ، خاموش، گم صم۔
"وہ کسی محفل اور کسی موقع پر بند نہ تھے۔"      ( ١٩٤٩ء گنج ہائے گراں مایہ، ٢٠٨ )
٤ - عاجز، مجبور۔
"مجھ سے آدمی کے منہ چڑھنا اور منہ لگنا کیا دل لگی ہے کچھ، جتنا نیچے اتنا اوپر، کسی شے میں بند نہیں۔      ( ١٩٠٣ء سرشار، سیرکہسار، ٤٢٢:١ )
٥ - بھڑا ہوا، مقفل، جہاں دوسرے کا گزر نہ ہو سکے، جہاں داخلہ ممنوع ہو، جس کی کنڈی لگی ہوئی ہو۔
"تھوڑی سی گفتگو کے بعد بند کمرے میں اظہار ہونے کی سی باتیں ہونے لگتیں۔"      ( ١٩٢٩ء بہارعیش سرفراز حسین، ٢٣ )
٦ - ملفوف، لپٹا ہوا، چاروں طرف سے مقید۔
 نہ اس بے مہر نے دیکھا نہ کچھ لکھا جواب اس کا یہاں سے بند خط جیسا گیا ویسا ہی بند آیا      ( ١٩٢٢ء دیوان قمر، ٢٦:١ )
٧ - افسردہ، پژمردہ، ٹھس، جیسے: اس وقت طبیعت بند ہے اچھا شعر نہیں کہا جا سکتا۔
٨ - مستحکم اور مضبوط جو کھولے نہ کھلے۔
 خوش لباسوں کو نہ چاہیں گے یہی عہد ہے اب بند کیا دل میں گرہ دی ہے کہ تایاد رہے      ( ١٨٣٦ء ریاض البحر، ٢٣٩ )
٩ - مقید، محبوس۔
 طوق گل میں پاؤں میں زنجیر ڈال بند فرمایا اسیروں کی مثال      ( ١٧٩١ء ریاض العارفین ٨١ )
١٠ - گھرا ہوا، جو چاروں طرف سے دیوار یا پردے وغیرہ کے احاطے میں ہو اور جس میں روشنی اور ہوا مشکل سے پہنچے۔
"فٹن کی سواری بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے سب طرف سے بند، ہوا کا نام نہیں"      ( ١٩٧١ء سہ ماہی اردو نامہ، کراچی، ٩٠:٣٩ )
١١ - [ سالوتری ]  سکڑا ہوا
"اس ٹٹو کی پچھلی ٹانگیں بند ہیں"      ( ١٩٢٤ء نوراللغات، ٦٧٤:١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بَنْدوں [بَن + دوں (واؤ مجہول)]
١ - جوڑ، بدن کا جوڑ، عضو، ہڈی کا جوڑ۔
 آئی اتنے میں ایک صدائے بلند کانپ اٹھا جس کے خوف سے ہر بند۔      ( ١٩٢٥ء ریاض امجد، ١٨:١ )
٢ - گرہ، گانٹھ، عقدہ، (جال وغیرہ کا) پھندا۔
"آہو نے کہا اگر موش بند میرے کاٹے اور صیاد آ پہونچے تو جست کر کے بھاگ سکتا ہوں۔"    ( ١٨٣٥ء بستان حکمت، گویا، ٢٢٤۔ )
٣ - مشکل، گتھی۔
 ستایش کروں میں خاوند کی گرہ کھولتا ہے جو ہر بند کی    ( ١٩٣٢ء کلام بے نظیر شاہ، ٣٢٠ )
٤ - پشتہ، وہ دیوار وغیرہ جو دریاؤں اور ندی نالوں کے پانی کو روکنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔
"سیلاب نیل سے بچنے کے لیے بند لگوائے تھے"      ( ١٩٤٣، تاریخ الحکماء، ١٠٤ )
٥ - وہ پتہ جس سے دریاؤں کا پانی روک کر آباپشی یا بجلی وغیرہ پیدا کرنے کے لیے یا اور کسی غرض سے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔
"اس بند کی بدولت سرحدی علاقے کے دوردراز گاؤں بی بجلی کی روشنی سے جگمگا اٹھے ہیں"      ( گھریلو انسائیکلوپیڈیا، ٧١٠ )
٦ - بلند دیوار کی جھوک روکنے کے لیے اس کی پشت سے ملا کر ڈھالو چُنا ہوا پاکھا یا پایہ۔ اصلاحات پیشہ وراں، 105:1)
٧ - وہ بنا سلا بٹا ہوا یا کسی اور طرح سے تیار کیا ہوا فیتا یا ڈورا یا تسمہ جس سے کسی چیز یا بنڈل وغیرہ کو باندھا جائے۔
"دل کے بند ٹوٹ کر خیالات ان سے پھوٹ نکلے"      ( ١٩٤٤ء عنایت اللّٰہ دہلوی، تائیس١٦٤ )
٨ - وہ فیتا یا ڈورا جو لباس یا جوتے وغیرہ کے ادھر ادھر کے حصہ کو کسا ہوا اور متصل رکھنے کے لیے باندھتے ہیں۔
"کبھی اپنے جوتوں کے بندوں کی گرہوں کو دیکھتے تھے کہ وہ چھوٹی بڑی تو نہیں۔"      ( ١٩٤٧ء بھولے سفر کو چلے (سالنامہ، ساتھی، جنوری) ٦٧ )
٩ - کھنڈی، نکمہ (کپڑے یا سونے چاندی وغیرہ کا)
 نہیں ہوتا ہے دل تو چکٹیوں میں ملا کرتا ہے وہ دو دوپہر بند      ( ١٨٢٤، مصحفی: انتخاب رام پور، ٧٩ )
١٠ - جُوڑا باندھنے کی دھجی یا ڈورا وغیرہ
 بند بالوں میں الجھ کر جو تمہارا ٹوٹا ہو گیا مجھ کو یقین رات کا تارا ٹوٹا۔      ( ١٨٧٢ء، دیوان قلق، مظہر عشق، ١٩٥ )
١١ - فہرست، فرد
"دعوت کے بند میں میرا نام نہیں"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٦٧٣:١ )
١٢ - کشتی کا داؤ، پیچ جس سے حریف کو بے بس کر دیا جائے۔
"پھر ایک گھات کے سو سو توڑ، ہر توڑ پر بند اور ہر بند کے پربند۔      ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، آوارہ۔ ٦٩ )
١٣ - بنوٹ
پہلے داؤ کا توڑ ہو جانے پر دوسرا اپنا جس سے حریف پر گرفت قائم رہے (اصلاحات پیشہ وراں، ٢:٨)      ( ١٨٧٣ء، عقل و شعور۔ ٤٣٦ )
١٤ - کاغذ کا تاؤ
 برآور دلی ہاتھ میر کی نظر کری مہر مہروں کی اس بند پر      ( ١٧٩٤ء، جنگ نامہ دو جوڑا، معظم، ٥٤ )
١٥ - کاغذ کا پرزہ یا تختہ۔
 یاں تک کہ اپنی چٹھی کے لکھنے کے واسطے کاغذ کا مانگتے ہیں ہر اک سے ادھار بند      ( ١٨٣٠ء کلیات نظیر اکبر آبادی، ٤٦٦ )
١٦ - زنجیر، کڑی۔
 پابند بلا وہ مبتلا تھا اب کس کو خیال بندیا تھا      ( ١٨٣٨ء گلزار نسیم، ٤١ )
١٧ - آہنی حلقہ جو مضبوطی کے لیے پہلے کے ناگر کے سرے پر لگا ہوتا ہے۔ (اصلاحات پیشہ وراں 113:5
١٨ - حلقہ، طوق۔
 دیکھا گھات کی بات میں لاگ چھند جنم جگ کا پڑیا مرے گل میں بند      ( ١٦٥٧ء، نصرتی، گلشن عشق، ١٢٠ )
١٩ - [ نظم ] مثلث مربع مخمس سدس مسبع، مثمن، متسع معشر ترکیب بند، ترجیع بند میں سے ہر ایک کا ایک ٹکڑا یا حصہ، نظم یا آزاد نظم کا ایک ٹکڑا یا حصہ۔
 شاہ نشیدا ہے مسدس کا گدا شیرا ہے کیسے بندے مرے بندوں کا خدا شیدا ہے    ( ١٩٣٩ء مراثی نسیم ٤٣٦:٢ )
٢٠ - [ نثر ] پیراگراف
کسی عبارت کو مختلف پیراگراف (بندوں) میں توڑنے کی جرات بھی میں نے ہی کی ہے۔"    ( ١٩٢٨ء، دیباچۂ فیہ مافیہ، ٦ )
٢١ - قید، حبس، حوالات۔
 قید فرنگ و بند زیست فرق سے بے نیاز ہیں موت سے پہلے آدمی جیل سے باہر آئے کیوں      ( ١٩٣١ء بہارستان، علی ظفر خان، ٤١١ )
٢٢ - موٹی چوڑی جو عورتیں دوسری نازک چوڑیوں کے آگے پہنتی ہیں (لاکھ شیشے وغیرہ کا) کڑا۔
 حسن دونا ہو گیا گوری کلائی کا تری بند جو پہنے سنہرے اور دہانی چوڑیاں      ( ١٩٥٧ء، دیوان یاس یگانہ، ١٢٢ )
٢٣ - رکاوٹ، روک، بندش، ممانعت۔
 علم نے رسم نے مذہب نے جو کی تھی بندش ٹوٹی جاتی ہے وہ سب بند کھلے جاتے ہیں      ( ١٩٠٦ء ماہنامہ، مخزن، ستمبر، ٥٦ )
٢٤ - جادو، سحر، ٹونا۔
 ہو گیا جو بند جانا اپنا کوے یار میں یہ نہیں کھلتا کہ باندھا کس نے ایسا بند ہے      ( ١٨٤٩ء کلیات ظفر، ١٥١:٢ )
٢٥ - اہل، صاحب۔
"فارسی کے دانش منداں، جنوں سمجھتے ہیں باتاں کے بنداں، ان کوں یں بھایا ہے"      ( ١٦٣٥ء، سب رس،١ )
٢٦ - طریقہ، ترکیب، جوڑ توڑ، حکمت۔
 وہ لوگ ایک کوڑی کے محتاج اب ہیں آہ کسب و ہنر کے یاد ہیں جن کو ہزار بند      ( ١٨٣٠ء کلیات نظیر اکبر آبادی، ٩٩:٢ )
٢٧ - لوہے کا ہنر جو صندوق کشتی کواڑ وغیرہ کے تختوں پر مضبوطی کے لیے لگاتے ہیں۔ (نوراللغات 673:1)
٢٨ - وعدہ، قول و قرار، عہد، بچپن۔ 12:20 PM 7/23/2005 (پلیٹس)
٢٩ - کمر پر باندھنے کی پٹی، کمربند۔
 کھلے نہ رستم دستاں سے گاہ و زوری میں جو دے وہ بند کمر میں دم جدال گرہ      ( ١٩٠٠ء دیوان حبیب، ١٩ )
٣٠ - قاعدہ، دستور، رسم و رواج۔ (پلیٹس)
٣١ - عورتوں کے ایک زیور کا نام جو بازو پر پہنا جاتا ہے۔
"زیورات عورتوں کے. بند۔"      ( ١٨٤٨ء توصیف زراعات، ٢٥١ )
٣٢ - تلوار کے قبضے میں بندھا ہوا ڈورا، بند شمشیر۔ (نوراللغات، 673:1)