مرد

( مَرْد )
{ مَرْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٠٣ء کو "نوسرہار (اردو ادب)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - حریف
 مرد عشق ستیزہ کار ہے دل ملک الموت سے دو چار ہے دل      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٨٤ )
٢ - اہل، لائق، شایاں۔
 یاد پری رخاں نے اڑائی لحد میں نیند میں مرد عشق تھا مجھے سونا حرام تھا      ( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ٢١ )
٣ - شریف، عالی خاندان، خاندانی۔
"آغا کے وہاں جانا اب کسی مرد آدمی کا کام نہیں ہے۔"      ( ١٨٩٣ء، دلچسپ، ٩٩:٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : مَرْدوں [مَر + دوں (و مجہول)]
١ - نر (عورت کا نقیض)۔
"عورت جب اپنی کرنی پر آجائے تو مرد کیا کر سکتا ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، نشیب، ٣٧٩ )
٢ - آدمی، بشر، شخص، آدم زاد، مانس۔
 یہ لاش بے کفن، اسد خستہ جاں کی ہے حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا      ( ١٩٦٩ء، غالب، دیوان، ١٥٥ )
٣ - شوہر، پتی، خاوند۔
"مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں رانڈ ہوں یا میرا مرد زندہ ہے۔"      ( ١٩٠٣ء، سرشار، بچھڑی ہوئی دلہن، ٦٥ )
٤ - بہادر، دلیر، سورما؛ حوصلہ مند، غیرت مند آدمی۔
"مرد ایسے موقعوں پر خون کر دیتے ہیں اور نامزد خودکشی۔      ( ١٩٨٩ء، آب گم، ٣٥٣ )
٥ - شریف آدمی
 پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی نازک بہت ہے آئند آبروے مرد      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٢٤٨ )