خاک

( خاک )
{ خاک }

تفصیلات


فارسی زبان سے اردو میں آیا۔ سب سے پہلے کلام بابا فرید میں ١٢٦٥ء کو ملتا ہے۔

اسم مادہ ( مؤنث - واحد )
١ - مٹی۔
"اس سرزمیں کو لاکھوں براتیوں کی بلا امتیاز مہمان نوازی کا شرف حاصل ہے یہاں کی خاک باعث نجات ہے"۔      ( ١٩٧٢ء، میاں کی ایڑیا تلے، ٤٢ )
٢ - گرد، دھول۔
"خاکی برجیس اور خاکی ریشمی بنیان پہنے تھیں۔ ان کے لمبے لمبے بالوں میں جنگل کی خاک اٹی ہوئی تھی"۔
٣ - زمین، ارض، ملک۔
 پونہچا دے مجھے جلد بس اے خالق افلاک اس خاک پہ جس خاک سے ملتی ہے مری خاک      ( ١٨٧٤ء، مراثی، انیس، ٢٨:١ )
٤ - راکھ، بھبھوت۔
 آب و گل میں جو تھی وفاداری خاک بھی اڑ کے کو بکو نہ گئی
٥ - ضمیر، سرشت۔
٦ - قبر، تربت۔
"دلی مٹ گئی دلی والے خاک میں جا سوئے"۔      ( ١٩٤٤ء، یہ دلی ہے، ٥ )
٧ - نفی، تاکیدِ نفی کے لیے، ہرگز نہیں۔
 زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں      ( ١٨١٦ء، دیوان، ناسخ، ٧٢:١ )
متعلق فعل
١ - بے کار، بے حاصل، فضول، بے فائدہ۔
 اب خاک آپ اس کی عیادت کو جائیں گے اب تو سپردخاک بھی بیمار ہو چکا
٢ - کچھ نہیں (نفی کے معنوں میں)
"اس ذلیل اور بے ہودہ قوم پر خاک بھی اثر نہ ہوا"۔      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ١٤٢ )
٣ - کیونکر، کس طرح، کیا۔
 مری خوشی انھیں کے ساتھ تھی، انھیں کے ساتھ رہ گئی ہنسی کا نام خاک لوں، وہ آنسوؤں میں بہہ گئی      ( ١٩٢٥ء، عالم خیال، شوق قدوائی، ٢١ )
٤ - کچھ۔
"حضرت نے کیا پوچھا تھا، مجھے تو خاک نہیں یاد رہا"۔      ( ١٩٢٥ء، مینابازار، شرر )
٥ - ہیچ، بے وقعت۔
 بس نہ دنیا کی رکھ اے صاحب ادراک ہوس خاک ہی خاک ہے سب خاک کی کیا خاک ہوس      دنیا ہے دنی خاک ہے دنیا کا زر و مال تذلیل کی بنیاد ہیں یہ حشمت و اجلال      ( ١٨١٨ء، کلیات، انشا، ٦٥ )( ١٩٢٠ء، روح ادب، ٤٩ )
٦ - تف، افسوس۔
 دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں خاک ایسی زندگی پر کہ پتھر نہیں ہوں میں      ( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ١٩٥ )
٧ - تحقیر کے لیے۔
 ایسے سے خاک مہرو وفا کی امید ہو جس پر ہنوز راز محبت عیاں نہ ہو     "خاک اچھے ہیں، اچھے ہوتے تو ہماری یہ حالت ہوتی"۔      ( ١٩٠٣ء، گل کدہ، عزیز، ٧٤ )( ١٩٧٥ء، خاک نشین، ٢١ )