اب خاک آپ اس کی عیادت کو جائیں گے اب تو سپردخاک بھی بیمار ہو چکا
٢ - کچھ نہیں (نفی کے معنوں میں)
"اس ذلیل اور بے ہودہ قوم پر خاک بھی اثر نہ ہوا"۔
( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ١٤٢ )
٣ - کیونکر، کس طرح، کیا۔
مری خوشی انھیں کے ساتھ تھی، انھیں کے ساتھ رہ گئی ہنسی کا نام خاک لوں، وہ آنسوؤں میں بہہ گئی
( ١٩٢٥ء، عالم خیال، شوق قدوائی، ٢١ )
٤ - کچھ۔
"حضرت نے کیا پوچھا تھا، مجھے تو خاک نہیں یاد رہا"۔
( ١٩٢٥ء، مینابازار، شرر )
٥ - ہیچ، بے وقعت۔
بس نہ دنیا کی رکھ اے صاحب ادراک ہوس خاک ہی خاک ہے سب خاک کی کیا خاک ہوس دنیا ہے دنی خاک ہے دنیا کا زر و مال تذلیل کی بنیاد ہیں یہ حشمت و اجلال
( ١٨١٨ء، کلیات، انشا، ٦٥ )( ١٩٢٠ء، روح ادب، ٤٩ )
٦ - تف، افسوس۔
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں خاک ایسی زندگی پر کہ پتھر نہیں ہوں میں
( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ١٩٥ )
٧ - تحقیر کے لیے۔
ایسے سے خاک مہرو وفا کی امید ہو جس پر ہنوز راز محبت عیاں نہ ہو "خاک اچھے ہیں، اچھے ہوتے تو ہماری یہ حالت ہوتی"۔
( ١٩٠٣ء، گل کدہ، عزیز، ٧٤ )( ١٩٧٥ء، خاک نشین، ٢١ )