اپنا

( اَپْنا )
{ اَپ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اتمنو  اَپْنا

سنسکرت زبان میں 'اتمنو' 'خود' کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے وہاں سے اردو میں داخل ہوا اور ایک عرصہ تک 'اپنا' کی صورت میں استعمال ہوتا رہا۔ اس صورت میں "کدم را و پدم راو" ١٤٣٥ء میں ہے اور اس کے بعد ١٥٩١ء "کلمہ الحقائق" میں اصل صورت میں ملتا ہے۔

ضمیر شخصی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اَپْنی [اَپ + نی]
جمع   : اَپْنے [اَپ + نے]
١ - (واحد متکلم کے لیے) میرا، مجھ سے متعلق۔
 دیکھیے عشق میں انجام ہو کیونکر اپنا ہائے کم بخت دل اپنا ہے نہ دلبر اپنا      ( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٨٨ )
٢ - (جمع متکلم کے لیے) ہمارا، ہم سب کا۔
 دعوٰی کیا جو دل کا تو بولا بگڑ کے یار اپنا تھا مال خوب کیا ہم نے کھو دیا      ( ١٨٥٤ء، دیوان اسیر، ریاض مصنف، ٢٥:٢ )
٣ - (واحد حاضر کے لیے) تیرا۔
 لگ گئی چپ تجھے اے داغ حزیں کیوں ایسی مجھ کو کچھ حال تو کم بخت بتا تو اپنا      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٤٧ )
٤ - (جمع حاضر کے لیے) تمہارا۔
"جس سہولت کی بنا پر تم نے میرا مضمون بدلوایا تھا اب اسی سہولت کے مدنظر اپنا مضمون بدلو"۔      ( ١٩٤٤ء، ایک نواب صاحب کی ڈائری، ١٧ )
٥ - (واحد غائب کے لیے) خود کا، اس کا۔
 شوق تنہائی کا ایسا ہے مرے دلبر کو کبھی آینیے میں دیکھا نہیں چہرا اپنا      ( ١٨٧٢ء، عاشق، فیض نشاں، ٦٢ )
٦ - (جمع غائب کے لیے)خود کے، ان کے۔
"باقی بیس کارکن ہیں جو انتظامی قابلیت میں اپنا نظیر نہیں رکھتے"۔ ١٩٠٥ء، یادگار دہلی، ٤٦
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اَپْنی [اَپ + نی]
جمع   : اَپْنے [اَپ + نے]
جمع غیر ندائی   : اَپْنوں [اَپ + نوں (و مجہول)]
١ - بیگانہ، رفیق، ہمدرد، رشتہ دار، موافق
 ستم ہے اس دل کی روشنی میں طرح طرح کا عذاب دیکھا جسے ہم اپنا سمجھ رہے تھے اسی کو خانہ خراب دیکھا      ( ١٩٣٦ء، گلدستہ ناز، ١٣ )
متعلق فعل
١ - (تاکید کے لیے ضمیر اضافی کے ساتھ)، ذاتی، شخصی
 میرا اپنا جدا معاملہ ہے اور کے لین دین سے کیا کام      ( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ١٣٦ )
٢ - خود، اپنے آپ
 سودا تجھے کہتا ہوں نہ خوباں سے مل اتنا تو اپنا غریب، عاجز و دل بیچنے والا      ( ١٧٨٠ء، کلیات، سودا، ٣٠:١ )
  • one's own kindred
  • relatives
  • friends