خفیف

( خَفِیف )
{ خَفِیف }
( عربی )

تفصیلات


خفف  خَفِیف

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٧١٣ء کو "دیوان فائز دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ہلکا، سبک (وزن میں)۔
"چوب ثقیل ہے اور پانی خفیف"    ( ١٨٥٦ء، فوائد الصبیان، ٩٣ )
٢ - کم، ہلکا (حالت اور کیفیت میں)۔
"ان کے ہاتھ میں خفیف سا رعشہ آگیا"    ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ٣٠٩ )
٣ - معولی، ادنٰی، بے قدر، بے حقیقت۔
"ایک آدھ جگہ کوئی خفیف سا جھگڑا بھی ہوا"    ( ١٩٨٣ء، خانہ بدوش، ٤٤ )
٤ - مدھم، کم، ہلکی۔
"چاند کی روشنی . ایسے اوقات میں جب ماحول روشن ہو خفیف معلوم ہوتی ہے"    ( ١٩٦٩ء، مقالات ابن الہیشم (ترجمہ)، ٢٠ )
٥ - تھوڑا، کم (مقدار میں)۔
"سلفریٹڈ ہائیڈروجن کے ساتھ ساتھ خفیف سی مقدار ہائڈروجن کی بھی پیدا ہو جاتی ہے"      ( ١٩٢٥ء، علمی کیمیا، ٤٩ )
٦ - رسوا، ذلیل و خوار۔
 بے گزٹ ہو کے جو رہیے تو محلے میں حقیر باگزٹ ہو کے جو چلئیے تو فرشتوں میں خفیف      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٣٧٥:٣ )
٧ - شرمندہ، نادم، محجوب۔
"میزبان کو خفیف کرنا کبھی پسند نہ کیا"      ( ١٩٧٥ء، خطبات محمود (شخصیت)، ٢٥ )
٨ - [ عروض ]  عروض میں ایک بحر، جس کے ارکان فاعلاتن، مس تفع لن، فاعلاتن ہیں۔
"(دائرہ) اگر جزو پنجم سے ابتدا کرو تو ایک بار تفعلن مف، عولات مس، تفعلن مس برابر فاعلاتن، مس تفع لن، فاعلاتن کے ہوگا۔ یہی بحر خفیف ہے"      ( ١٨٧١ء، قواعد العروض، ٢٩ )
٩ - [ فقہ ]  ایسی نماز جس میں قرأت طویل نہ ہو اور قرأت مسنونہ سے زیادہ کم بھی نہ ہو۔
"وہ ظہر کی پہلی دو رکعتوں کو طویل پڑھتا تھا اور آخری دو رکعتوں کو خفیف اور عصر میں تخفیف کرتا تھا"      ( ١٩٥٦ء، مشکوٰۃ شریف، (ترجمہ)، ١٨٩ )
١٠ - [ قواعد ]  حروف علت کی آواز جس کو کھینچ کر نہ پڑھا جائے۔
"اردو تحریر میں حرکات استعمال نہیں کی جاتی ہیں اور اگر حرکات بھی استعمال کی جائیں تب بھی خفیف کا مسلہ حل نہیں ہوتا"      ( ١٩٦٨ء، اردو نامہ، کراچی، ١١٥:٣٠ )