دم

( دُم )
{ دُم }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار بعینہ داخل ہوا اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دُمیں [دُمیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دُموں [دُموں (و مجہول)]
١ - پونچھ
"ان کی دمیں مثالیں بنی ہوئی تھیں اور جھاڑو کی طرح شہر میں پھر رہی تھیں۔"    ( ١٩٧٩ء، بستی، ٢٢١ )
٢ - (پگڑی وغیرہ کا) پچھلا حصہ جو لمبا، لٹکتا ہوا زائد معلوم ہو، شملہ، دنبالہ۔
 شیخ صاحب کو اگر شملے سے دعوت آگئی کم سے کم نوگز تو ہو جائے گی دُم ستار کی    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٥٩ )
٣ - وہ شخص جو کسی کے پیچھے مستقل لگا رہے۔ پچھلگو، دُم چھلاّ۔
"پخ۔ خبر نہ تھی کہ آزاد اور ان کی دم یہاں موجود ہیں۔"    ( ١٨٨٠ء، فسانہ آزاد، ٧٤٦:٣ )
٤ - پیروی کرنے والا، پیچھے چلنے والا، پیرو (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ، پلیٹس)
٥ - انت، انجام، تھوڑا سا کام۔
"ہاتھی نکل گیا، دم باقی رہ گئی۔"      ( ١٨٨٨ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٦٩:٢ )
٦ - وہ لمبی سفید دھاری جو دمدار تارے کے پیچھے ہوتی ہے۔ (ماخوذ: جامع اللغات)