زخم

( زَخْم )
{ زَخْم }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اپنی اصل حالت اور اصل معنی میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : زَخْموں [زَخ + موں (واؤ مجہول)]
١ - جسم کے کسی حصے کے کٹ جانے یا چھیل جانے کی صورت، گھاؤ، چیر۔
پیشانی پہ زخم کھا چکا تھا میدان میں نام پا چکا تھا      ( ١٩١٨ء، مطلع انوار، ١٦٢ )
٢ - ضرب۔
"شیر محمد خان نے بھی زخم تلوار سے دو ٹکڑے کیا"      ( ١٨٧٢ء، تاریخ بھوپال، ٦:١ )
٣ - صدمہ۔
"شاید صاحب کا زخم تازہ تازہ تھا اور میں نے اس خیال سے کہ ان کا دھیان بٹے، ان کو مضمون نگاری کی طرف متوجہ کیا تھا"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ٥٩ )
٤ - نقصان، خسارہ، گھاٹا، محل، مکان، قصر۔ (جامع اللغات)
  • wound
  • sore
  • cut
  • gash;  fracture;  injury;  damage;  loss