خبر

( خَبَر )
{ خَبَر }
( عربی )

تفصیلات


خبر  خَبَر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو دیوان "حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - آگاہ، واقف، باخبر۔
 عشق میں کوشش اخفائے حقیقیت معلوم دردمندوں کا ہر انداز خبر ہوتا ہے      ( ١٩٤٧ء، نوائے دل، ٣٣٨ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : خَبْریں [خَب + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : خَبْروں [خَب + روں (و مجہول)]
١ - حال، احوال، خبریت۔
 نہ خط آتا ہے اودھر سے نہ قاصد لکھوں کیا مدتوں سے ہے خبر بند      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٩٦ )
٢ - آگاہی، واقفیت۔
 اس کی نظر دراصل نظر ہے اس کی خبر دراصل خبر ہے۔      ( ١٩٥٠ء، دھپد (ترجمہ)، ١٦ )
٣ - ہوش، اوسان، سدھ بدھ۔
 ہر نغمہ دلکش میں قیامت کا اثر ہے خود رفتہ ہیں سب اپنی نہ دنیا کی خبر ہے      ( ١٩٢٦ء، مطلع انوار، ٣٨ )
٤ - مزاج پرُسی، عیادت۔
"ان کا جی ماندا ہے اور کوئی بڑی بوڑھی ان کی خبر کو آگئیں۔ اب جب تک . وہ رہیں گی کیا مقدور ہے جو . لیٹ جائیں"      ( ١٨٧٤ء، مجالس النساء، ٣٤:١ )
٥ - پیغمبر اسلام کا ارشاد، حدیث نبوی، وحی۔
 حجتِ حق کون لندن میں کرے جا کر تمام کون برلن میں کرے تبلیغ قرآن و خبر      ( ١٩٠٣ء، کلیات نظم حالی، ١٠١:٢ )
٦ - بُری اطلاع، منحوس خبر۔
"اس ایک ذرا سی خبر سے گھر میں کہرام ہو گا"      ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ١٥٨ )
٧ - [ قواعد ]  کسی چیز کی بابت جو کچھ کہا جائے، سند (مبتدا کا مقابل)۔
 دل مرکزِ اندیشر نہ مل جائے خبر ہے انسان کی دولت ہے کوئی چیز تو سر ہے      ( ١٩٦٦ء، الہام و افکار، ٣٠ )
٨ - وہ بات جو عقل اور تحقیق سے معلوم ہوا اور باطنی مشاہدے میں نہ آئی ہو۔
 نظر درد وغم و سوز وتب وتاب تواے ناداں قناعت کر خبر پر      ( ١٩٣٨ء، ارمغان مجاز، ٢٣٢ )
٩ - [ منطق ]  خبر کی اصل۔
"خبر وہ مرکب نام ہے جو متحمل صدق و کلب ہو اسی کو قضیہ بھی کہتے ہیں"      ( ١٩٢٣ء، المنطق، ٨ )
١ - خبر رکھنا
خیال کرنا، دھیان رکھنا، احساس ہونا۔"ذرا میرے گھر کی خبر رکھنا۔"      ( ١٩٢٣ء، لفات اردو، ٦٧:٣ )
کسی امر یا معاملے سے واقف ہونا، علم و آگاہی ہونا۔ سب کی حالت کی خبر رکھتا ہے تو اے خبیرِ دہر و دانائے علیم      ( ١٨٧٣ء، مناجات ہندی، ٨٩ )