جمع غیر ندائی : سَرْمایوں [سَر + ما + یوں (و مجہول)]
١ - دھن دولت، روپیہ پیسا اور سامان وغیرہ، نقد اور املاک، ذخیرہ۔
"کالج کا سرمایہ اور کرایہ ایسے کھاتے میں پڑ جائے گا کہ حکومت کو بھی خبر نہیں ہونے پائے گی کہ کیا حساب تھا اور اس کا نتیجہ نکلا"
( ١٩٨٤ء، مقاصدو مسائل پاکستان، ٨٨ )
٢ - کمائی۔
"انہوں نے ادب کا جو سرمایہ چھوڑا ہے اس کی قدرو قیمت ہمیشہ وہی رہے گی جو اعلٰی درجے کے ادب کی ہوا کرتی ہے"
( ١٩٨٧ء، مقالات عبدالقادر (پیش لفظ)، ١٧ )
٣ - زراصل، راس المال، پونجی۔
"سرمائے کے اجرا پر بلاواسطہ نگرانی کے سبب سے بھی یہ طلب گھٹ گئی تھی"
( ١٩٦٠ء، دوسرا پنج سالہ منصوبہ، ١٤٤ )
٤ - باعث، سبب۔
جو تخم تھا جہاں کا سرمایۂ حقارت وہ آج نخل بن کر دیتا ہے سب کو سایا
( ١٩٤٦ء، لبیب تیموری، آتش خنداں، ٢٧٦ )