آنکھ

( آنْکھ )
{ آنْکھ (ن مغنونہ) }
( سنسکرت )

تفصیلات


آکش  آنْکھ

سنسکرت زبان کے لفظ 'آکش' سے ماخوذ ہے قدیم زمانے میں 'آنکہ' اور 'آنک' بھی استعمال ہوتا رہا لیکن آنکھ ہی رائج ہوا سب سے پہلے ١٥٠٣ء میں "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آنْکھیں [آں + کھیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : آنْکھوں [آں + کھوں (و مجہول)]
١ - [ اولا ]  وہ عضو جس سے دیکھتے ہیں، آلہ بصارت۔
 کہیں کس سے کہ ہیں تعبیر اک خواب مسرت کی یہ آنکھیں اشک ریز اپنی یہ دامن خونچکاں اپنا      ( ١٩٢١ء، ضیائے سخن، ٦٤ )
٢ - [ مجازا ] دیکھنے کی قوت، بصارت، نگاہ، نظر، بینائی چشم۔
 دل چرایا ہے وہ اب آنکھ ملائیں کیونکر سامنے ہوتی ہے مشکل سے گنہگار کی آنکھ    ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٨٤ )
٣ - دیکھنے کی صلاحیت۔
"حاکم کے آنکھ نہیں ہوتی کان ہوتے ہیں۔"    ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٥٣:١ )
٤ - دیکھنے کا انداز(جس سے دل کا حال معلوم ہو جائے)، تیور۔
 دبدبہ بھی ہے وہی طرز سخن بھی ہے وہی آنکھ بھی ہے وہی ابرو کی شکن بھی ہے وہی      ( ١٩٦٣ء، مراثی نسیم، ١١:٣ )
٥ - مشاہدہ، دیکھنے کا عمل۔
 سنی سنائی پہ ایقان واہ کیا کہنا بغیر آنکھ کے عینی گواہ کیا کہنا      ( ١٩٥٦ء، اختر (سجاد علی خاں)، مسدس، ٨ )
٦ - توجہ، رجحان، نظر التفات، نگاہِ رغبت۔
 صاحب کی آنکھ اب جو عروس اجل پہ ہے اپنی بھی آنکھ خالق عز و جل پہ ہے      ( ١٩٢٥ء، جاوید (سید محمد کاظم)، مرثیہ، ١١ )
٧ - مروت، لحاظ، پاس۔
 دم توڑتی ہوں پیاس سے تم پر اثر نہیں کل تک جو تھی وہ آنکھ نہیں وہ نظر نہیں      ( ١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ٧ )
٨ - تمیز، شناخت، امتیاز، اٹکل، پرکھ۔
"اس کے خاوند کو جواہرات کی آنکھ تھی۔"      ( ١٩٤٤ء، افسانچے، کیفی، ١٣٦ )
٩ - بصیرت، چشم معرفت، بالغ نظری، عقل، سمجھ۔
"میں دعا دیتا ہوں کہ خدا پٹنہ والوں کو سمجھ اور آنکھ دے۔"      ( ١٩٢٤ء، مکتوبات شاد عظیم آبادی، ١٩١ )
١٠ - اشارہ، ایما۔
 صحبت کا رقیبوں کی ہے ادنٰی یہ کرشمہ جو آنکھ سے فرماتے ہیں وہ دل میں نہیں ہے      ( ١٩٣٦ء، غزل کوکب، ماہنامہ، مسافر، مراد آباد، جنوری، ٢٧ )
١١ - مہارت، مشق، دخل۔
 ہشیار اسیر آنکھ ہے تجکو جو سخن میں رکھتے ہیں وہ سر پر میرے دیوان کو ادب سے      ( ١٨٨١ء، مسیو، امیراللغات، ٢١٠:١ )
١٢ - امید، توقع، آسرا۔ امیر اللغات، 210:1
١٣ - گنے، بانس یا کسی اور پودے کی وہ جگہ جہاں سے شاخ پھوٹتی ہے، (بیشتر) گرہ۔
"قلم جب بناویں تو نیچے کی جانب اور اوپر کے حصّے کی جانب قریب قریب آنکھ چھوڑ دینی چاہیے۔"    ( ١٩٠٣ء، باغبان، ١٩ )
١٤ - شریفے کی پوست کا حلقے دار ابھار؛ انناس وغیرہ کے حلقے (ماخوذ : جامع اللغات، 61:1)
١٥ - کریلے کے اندر کا وہ پوست جس میں بیج لپٹا ہوتا ہے، جیسے کریلے کو چھیل کاٹ کر اور اس کی آنکھوں میں سے بیج نکال کر نمک ملو اور کچھ دیر ہوا میں رکھ دو۔
١٦ - لہسن کا جوا، جیسے : بڑی آنکھ کا لہسن چھانٹ کر لانا۔
١٧ - تخمینہ، اندازہ
 لیا نہ دل مرا اک بوسے پر وہ یوں بولا ہماری آنکھ میں اتنے کا تو یہ مال نہیں      ( ١٨٢٤ء، مصحفی، دیوان (ق)، ١٧٨ )
١٨ - اولاد، بیٹا بیٹی وغیرہ۔
"مجھے دونوں آنکھیں برابر ہیں جو بڑی کو دوں گی وہی چھوٹی کو دوں گی۔"      ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ١٥٣:١ )
١٩ - گھٹنے کے دونوں طرف کا گھڑا۔ (امیر اللغات، 21:1)
٢٠ - چھایا، سایا، آسیب، خیالی یا وہمی صورت (عموماً 'پر' کے ساتھ مستعمل)۔ (فرہنگ آصفیہ، 254:1)
٢١ - حلقہ، جیسے زنجیر کی آنکھ، رزہ کی آنکھ وغیرہ (اکثر مضاف الیہ کے ساتھ مستعمل)۔
 وہ تیغ تیز آبینہ پیکر پری نژاد قبضے کی آنکھ، فون کی سورت پہ حق کا صاد    ( ١٩٦٢ء، ٦٢ء کے چند جدید مرثیے، ٧٨ )
٢٢ - حرف کے دائرے کی صورت حال یا گول کشش۔
 وہ دائروں کی آنکھ نہیں وہ نظر نہیں فعلوں کا ہے یہ حال کہ اک حال پر نہیں    ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٣١:٧ )
٢٣ - پتلی۔
"میری داہنی آنکھ میں پانی اتر آیا ہے۔"      ( ١٩١٣ء، مکاتیب حالی، ٧٧ )
٢٤ - خوردبین وغیرہ کا شیشہ، عدسہ، لینس۔
"خوردبین کی آنکھ کے نیچے رکھ کر دیکھ سکتی ہے۔"    ( ١٩٦٩ء، نفسیات اور ہماری زندگی، ١٧ )
٢٥ - سگنل۔
"مسافر کے لیے لازم ہے کہ سفر کے آداب سے واقف ہو، ایک خاص شریفانہ رفتار سے تجاوز نہ کرے، سرخ آنکھ نظر آئے تو رک جائے، سبز آنکھ نمودار ہو تو چل پڑے۔"    ( ١٩٧٥ء، وزیر آغا، ماہنامہ، الشجاع، سالنامہ، کراچی، ٣٩ )
٢٦ - مدار کا پودا، آک کا درخت۔
"جنگل میں ایک درخت ہوتا ہے جس کو آنکھ یا آک کہتے ہیں، اس کے پھول بالکل آنکھوں کی شکل کے ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٥٥ء، حسن نظامی، پھول، ٢٤ )
١ - آنکھ سے ٹپکنا
نظر یا تیور سے کسی بات کا ظاہر ہونا۔ گھر کر دیے تھے کتنے ہی بدذات نے غارت آنکھوں سے ستمگر کی ٹپکتی تھی شرارت      ( ١٩٧٠ء، مرثیہ فیض بھرتپوری، ٩ )
٢ - آنکھ سے چنگاریاں اُڑنا
غصے میں آنکھیں سرخ ہو جانا۔ جری کی آنکھ سے چنگاریاں جو اڑتی تھیں نگاہیں شوم کی گوشوں کی سمت مڑتی تھیں      ( ١٩١٩ء، مرثیہ بزم اکبر آبادی، ١٣ )
٣ - آنکھ سے خون ٹپکنا
رونا تہ جنجر مآل سخت جانی دیکھیے کیا ہو ابھی سے خون اس قاتل کی آنکھوں سے ٹپکتا ہے      ( ١٩١١ء، تسلیم (امیر اللغات، ٢٢٨:١) )
٤ - آنکھ سے دور ہونا
جدا ہونا جذب الفت پہ مجھے ناز ہے اے پردہ نشیں دل سے نزدیک ہے تو گو مری آنکھوں سے ہے دور      ( ١٩٣٧ء، قصائد نسیم، ١١٧ )
٥ - آنکھ سے دیکھنا
بچشم خود معائنہ کرنا لطف کھویا اشک نے نظارہ تحریر کا دیکھتا ہوں آنکھ سے لکھا ہوا تقدیر کا      ( ١٩٣٢ء، نقوش مانی، ١٧ )
٦ - آنکھ جمانا
نگاہ کو کسی مرکز پر ٹھہرانا، غور سے دیکھنا؛ کسی چیز پر ہر پہلو سے نظر ڈالنا۔ حسن یوسف کو بہت آنکھ جما کر دیکھا پوری تصویر تمھاری ہے شباہت کیسی      ( ١٨٨٨ء، صنم خانہ عشق، ٢٦٨ )
٧ - آنکھ جمنا
آنکھ جمانا کا فعل لازم ہے۔ یہ برق وہ ہے جس کا اثر تابفلک ہے آنکھیں نہیں جمتیں یہ چمک ہے یہ دمک ہے      ( ١٩٢٩ء، مرثیہ رفیع (مرزا طاہر)، ١٢ )
٨ - آنکھ جھپکانا
نگاہ کو خیرہ کر دینا؛ آنکھ یا آنکھوں کو چکاچوند کر دینا۔ فلک پر آنکھ کو بہرام کی بھی جھپکا دیں دکھائیں تیغ کے جوہر جو چشم خشم آگیں      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، جلال، ٦ )
تھوڑی سی دیر کو سلا دینا یا سونا۔ رات بھر بے تابیوں کی کچھ تلافی چاہیے صبح نے بیمار غم کی آنکھ جھپکائی تو کیا      ( ١٩٤٢ء، اسرار، ٧٢ )
٩ - آنکھ جھپکنا
آنکھ جھپکانا کا فعل لازم ہے۔ ستاروں سے روشن وہ ہیرے جڑے ہیں کہ خورشید کی آنکھ بھی جن سے جھپکی      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ٢٠٠ )
١٠ - آنکھ جھکانا
نیچے کی طرف دیکھنا یا دیکھنے لگنا، نظر نیچی رکھنا۔ مخاطب ہیں وہ نرگس سے چمن میں جھکائے آنکھ ہم شرما رہے ہیں      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، جلال، ٩٩ )
شرمانا، شرم سے آنکھ نیچی کرنا۔ ملا کے آنکھ نہیں رو آپ کہتے ہیں جھکا کے آنکھ ذرا ایک بار ہاں تو کریں      ( ١٩٣٢ء، نقوش مانی، ١٠٤ )
١١ - آنکھ جھکنا
آنکھ جھکانا کا فعل لازم ہے۔ تھی خطا ان کی مگر جب آ گئے وہ سامنے جھک گئیں میری ہی آنکھیں رسم الفت دیکھیے      ( ١٩٢٠ء، روح ادب، ٨٦ )
١٢ - آنکھ چار کرنا
نظر سے نظر ملانا، آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا، بے روک ٹوک سامنے آنا، ڈھٹائی سے دیکھنا۔ چوٹیں جو بڑھ کے چاروں نے ایک بار کیں تھرائے ہاتھ ڈھال نے آنکھیں جو چار کیں      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٧ )
١٣ - آنکھ چرانا
آنکھیں چار نہ کرنا، بے مروتی کرنا، (شرمیلے پن یا ناز و ادا کی بنا پر یا احفائے راز وغیرہ کے لیے کسی کی طرف) کھل کر نہ دیکھنا، ٹال دینا۔'اسلام کی سچی تعلیم یہی تھی کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو جو تمہاری اعانت کے محتاج ہیں ان سے آنکھ نہ چراءو۔"      ( ١٩٣٦ء، راشدالخیری، زیور اسلام، ١٢ )
١٤ - آنکھ دبا کر دیکھنا
کچھ کھلی کچھ بند آنکھ سے دیکھنا، ایک آنکھ بندکر کے دیکھنا، بھینگے پن کے انداز سے دیکھنا۔'ایک پستہ قامت بھینگا سیاہ فام آدمی بائیں آنکھ دبا کر داہنی سے مہدی کو بغور دیکھتا ہوا کمرے میں آیا۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر دلچسپ، ١٩:١ )
١٥ - آنکھ پھیرنا
بے مروتی کرنا۔ نرغے میں ہم ہیں سوتے ہو کیا رن میں چین سے تم نے بھی آنکھ پھیر لی بیکس حسین سے      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٨ )
توجہ ہٹا لینا، کنارہ کرنا، گریز کرنا۔'وہ تو کبھی میری طرف سے آنکھ نہیں پھیرتا۔"      ( ١٩١٠ء، آپ بیتی، ١٠٥ )
مرنا، دنیا سے گزرنا۔'اب کی تو مروا ہی ڈالا تھا اور آپ نے بھی آنکھیں پھیر لی تھیں۔"      ( ١٩٠٣ء، سرشار، خدائی فوجدار، ٩٣:١ )
١٦ - آنکھ توتے کی طرح بدلنا | پھرانا | پھیرنا
یکایک بے مروتی اختیار کرنا، بے مروتی کرتے دیر نہ لگنا۔'کیا توتے کی طرح آنکھ بدلی ہے گویا کبھی آشنا ہی نہ تھے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٥٧:١ )
١٧ - آنکھ ٹھہرنا
نگاہ جمنا، نظر کا ایک نقطے یا مرکز پر قائم رہنا۔ آنکھ ٹھہرے فروغ جام پہ کیا ہر کرن آفتاب کی سی ہے      ( ١٩٣٤ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٢٣١ )
١٨ - آنکھ جاتی رہنا
بصارت زائل ہونا، کسی صدمے یا بیماری سے بینائی ختم ہو جانا۔'صفدر جنگ کی بائیں آنکھ میں ایک تیر لگا جس سے آنکھ جاتی رہی۔"      ( ١٩٥٦ء، بیگمات اودھ، ٢٦ )
١٩ - آنکھ پھرانا
سابقہ مروت اور ہمدردی ترک کرنا، بے وفائی برتنا۔ خوش ہو کے عبث مجھ کو ستا لیتا ہے تنتی ہیں بھویں آنکھ پھرا لیتا ہے      ( ١٩٢٧ء، شادعظیم آبادی، رباعیات، ٧٧ )
٢٠ - آنکھ پھرنا
بے مروتی کا برتاءو کرنا، برگشتہ ہونا۔ آنکھ تیری جو پھری پھر گئی ساری دنیا انتہا ہے کہ مخالف ہے مرا دل مجھ سے      ( ١٩١٥ء، جان سخن، ١٩٣ )
مر جانا، عالم اختصار ہونا۔ اس کی جب آنکھ پھری پھر گئیں اس کی آنکھیں شیفتہ مرنے پہ تیار ہی کیا پھرتا تھا      ( ١٨٦٩ء، شیفتہ، کلیات، ١٢٢ )
٢١ - آنکھ پھوٹنا
چوٹ یا کسی صدمے سے اندھا ہو جانا، بینائی جاتی رہنا، دیدہ پٹم ہو جانا۔'خالہ جان آنکھیں پھوٹیں جو میں نے کل محسن کے لڑکے کو دیکھا بھی ہو۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، راشدالخیری، ٥١ )
٢٢ - آنکھ بھر لانا
آنکھ میں آنسو بھر لانا، خود کو آبدیدہ کرنا۔ سامنے آنکھوں کے خوں نور نظر کا جو بہا آنکھ بھر لائے مگر اف بھی زباں سے نہ کہا      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٩ )
٢٣ - آنکھ پتھرانا
آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جانا اور بے حس و حرکت ہو جانا، بے نور ہو جانا، کچھ نظر نہ آنا۔ پتھرا گئی تھی آنکھ مگر بند تو نہ تھی اب یہ بھی انتظار کی صورت نہیں رہی      ( ١٩٤١ء، فانی، کلیات، ٢١٠ )
٢٤ - آنْکھ پرنم ہونا
آنکھوں میں آنسو بھرے ہونا، آنسو بہنا۔ شبیر ہیں لخت جگر سرور عالم کیا غم اسے جو آنکھ شہ میں ہے پرنم      ( ١٩٧٢ء، مرثیہ یاور اعظمی، ٢ )
٢٥ - آنکھ پر میل (تک) نہ ہونا
تیوری پر بل نہ پڑنا، قطعاً ناگوار نہ گزرنا۔'میں نے خود (ان کو) لاکھوں ہار کے اٹھتے دیکھا تھا، آنکھ پر میل تک نہیں اچھی خاصی دولت پلک جھپکاتے آئی گئی ہو گی۔"      ( ١٩٢٤ء، خونی راز، مرزا رسوا، ٨٢ )
٢٦ - آنکھ پڑنا
(عشق و محبت، حسرت، رغبت، توجہ والتفات، حسد و عداوت، پسندیدگی وغیرہ سے) دیکھنا (اتفاقیہ یا بالارادہ) چشم ساقی کی وہ مخمور نگاہی توبہ آنکھ پڑتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانوں کی      ( ١٩٤١ء، فانی، کلیات، ١٩١ )
٢٧ - آنکھ پسیجنا
آنکھ کا آنسوءوں سے نمناک ہونا، آنکھوں میں آنسو آنا۔ (شرم یا رحم سے)۔ بے رحم سنگدل ستم اطوار بدشعار آنکھیں پسیجتی نہیں تڑپے کوئی ہزار      ( ١٩٣٨ء، مرثیہ رائق، ٩ )
٢٨ - آنکھ بہانا
آنکھ بہنا کا تعدیہ ہے رونے دھونے سے نہ کچھ بات بن آئی اپنی ان کا کچھ بھی نہ گیا آنکھ بہائی اپنی      ( ١٩٢١ء، واسوخت شبیر خان، ١٣ )
٢٩ - آنکھ بہنا
مسلسل رونا، ہر دم آنسو جاری رہنا؛ آنکھوں سے پانی بہا کرنا۔ دیکھ بہتی آنکھ میری ہنس کے بولا کل وہ شوخ بہ نہیں اب تک ہوا منہ کا ترے ناسور کیا      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٣٦٩ )
پتلی اور دیدے کا خراب اور بے نور ہو جانا۔'ایسا نزلہ گرا کہ دونوں آنکھیں بہ گئیں۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٢١٦:١ )
٣٠ - آنکھ بھر آنا
آنکھوں میں آنسو ابل آنا؛ آبدیدہ ہونا۔ سوشیلا نے پتی کی اپنے جب یہ آرزو پائی تو دل ڈوبا وفور بیکسی سے آنکھ بھر آئی      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ١٥٦ )
٣١ - آنکھ بھر کر دیکھنا
نظر جما کر دیکھنا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نظارہ کرنا۔ رخ جاناں کے آگے ہر تماشائی کو سکتا ہے کوئی خورشید کو بھی آنکھ بھر کے دیکھ سکتا ہے      ( ١٨٥٤ء، دیوان اسیر، گلستان سخن، ٤٤٥ )
جی بھر کر دیدار کرنا، سیر ہو کر دیکھنا۔ کوئی دیکھے کیونکر انہیں آنکھ بھر کے کڑے تیوروں نے بٹھایا ہے پہرا      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ١١ )
٣٢ - آنکھ بدلنا
پہلی سی نظر اگلی سی بات نہ رہنا۔ میزباں کی دیکھتی ہے آنکھ جب بدلی ہوئی واں سے اٹھ کر دوسری جا ڈھونڈتی ہے میہماں      ( ١٩١٤ء، حالی، کلیات نظم حالی، ١١٨:٢ )
بے مروتی اور بے رخی اختیار کرنا وہ اپنی دھن کا پکا ہے جو بدلی آنکھ تو بدلی بندھے پانی کی یہ لہریں لکیریں سمجھو پتھر کی      ( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، آرزو، ٨٤ )
٣٣ - آنکھ بند کرنا
(نفرت، غیرت، بے مروتی، خوف و رعب، کمال تابش یا فرط قلق وغیرہ سے) آنکھیں میچ لینا۔ اللہ رہے چھوٹ روے شہ ارجمند کی ذرے جو چمکے آنکھ ستاروں نے بند کی      ( ١٩٣٤ء، مرثیہ رفیع (مرزا طاہر)، ٥ )
کسی کام کی طرف سے غفلت برتنا، بے توجہی کرنا، نظرانداز کرنا۔'بغداد کے کارناموں سے آنکھیں بند کر لینا تو اپنی میراث کو ٹھکرانا ہے۔"      ( ١٩٤٦ء، تعلیمی خطبات، (ڈاکٹر ذاکر حسین)، ٢٠٦ )
مر جانا۔'جس دن سے میاں نے آنکھ بند کی برقعہ ان کے سر پر تھا۔"      ( ١٩٣٢ء، اخوان الشیاطین، ٣١٠ )
٣٤ - آنکھ اوپر نہ اٹھنا
کمال مصروفیت کی وجہ سے کام کے علاوہ کسی اور طرف دھیان نہ دینا۔'ایسے لکھنے میں مصروف ہیں کہ آنکھ اوپرنہیں اٹھاتے۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٢١٢:١ )
شرم وغیرہ کی وجہ سے نظر اونچی نہ کرنا۔ نادان رو رہی تھی برابر یہ حال تھا اوپر نہ آنکھ اٹھاتی تو دم بھر یہ حال تھا      ( ١٩٧٢ء، عزم جونپوری، ذکر وفا، ١٥ )
٣٥ - آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل
جو چیز آنکھ کے سامنے نہ ہو اگر وہ قریب ہو تب بھی دور ہے۔'منہ دیکھے کی دوستیاں رہ گئی ہیں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔"      ( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ١٤٧ )
٣٦ - آنکھ اونچی کرنا
نظر اٹھنا، نظر اٹھا کر دیکھنا، نظر سے نظر ملانا۔ کیا ہوا جرم ہے کیا کون سی میری تقصیر آنکھیں اونچی کرو کیوں بیٹھے ہو شرمائے ہوئے      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر (واجد علی شاہ)، ٨٣٦ )
٣٧ - آنکھ اونچی ہونا
آنکھ اونچی کرنا کا فعل لازم ہے۔ پست ہے زاہد کوتاہ نظر کی فطرت آنکھ اونچی کبھی ہوتی ہے تو بدبینی کو      ( ١٩٠٣ء، غزلیات جوہر (مجاہد حسین)، ٩٧ )
٣٨ - آنکھ آنا
آنکھ یا آنکھوں میں سرخی کھٹک اور کبھی کبھی سوجن بھی ہونا، آنکھیں دکھنے آنا۔ (امیراللغات، ٢١٠:١) روتے روتے سجائی ہیں آنکھیں کوئی جانے کہ آئی ہیں آنکھیں      ( ١٨٨٠ء، قلق (امیراللغات، ٢١١:١) )
٣٩ - آنکھ اٹھا کر دیکھنا
اوپر دیکھنا دیکھا جو آنکھ اٹھا کے شہ دیں نے ایک بار سایہ کیے تھے فرق پہ جبریل نامدار      ( ١٩٣٩ء، جلیل (فرزند حسن)، مرثیہ، ٢١ )
سامنے دیکھنا۔ دیکھا جو آنکھ اٹھا کے تو میداں سے تا فرات چھائی تھی مثل ابر سیہ فوج بد صفات      ( ١٩٣٤ء، مرثیہ فہیم (باقر علی خاں)، ٤ )
حسرت سے دیکھنا، غمخواری کی توقع میں دیکھنا۔ حضرت نے آنکھ اٹھا کے جو دیکھا ادھر ادھر کوئی نہ تھا فرس سے اتارے جو تھام کر      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٩ )
دشمنی کی نگاہ سے دیکھنا۔'کس کی مجال ہے جو آپ کو آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے"      ( ١٩١٧ء، یزید نامہ، حسن نظامی، ٦١ )
سرسری طور پر دیکھنا؛ محض دیکھنا۔ جدھر دیکھا اٹھا کر آنکھ شام غم نظر آئی نظر کے راستے محدود ہیں زلف پریشاں سے      ( ١٩٣٥ء، عیاں، دیواں، ١٦١ )
٤٠ - آنکھ اٹھا کر(بھی) نہ دیکھنا
سرسری طور پر بھی نہ دیکھنا۔'ان میں پاک دامن حوریں ہوں گی جو غیر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گی۔"      ( ١٩٠٣ء، ترجمہ قرآن، نذیر، ٨٩٢ )
خاطر میں نہ لانا، کچھ حقیقت نہ سمجھنا۔'منوں چیز گھر میں آتی اور (وہ) آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٦ )
رعب یا خوف سے کسی پر نظر نہ ڈالنا، بے باکی بے حجابی سے پیش نہ آنا۔'ابا جی کے سامنے میرے بھائی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، واردات، ١٥ )
٤١ - آنکھ اٹھانا
اشارہ کرنا۔ تھی وغا میں جو وہ پابند امام عالی جس طرف آنکھ اٹھائی ہوا میداں خالی      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١١ )
٤٢ - آنکھ اٹھنا
آنکھ اٹھانا کا فعل لازم ہے۔ فلک ہے دونوں طرف کا نگاہیباں جب تک نہ اپنی آنکھ اٹھے گی نہ پردہ محمل کا      ( ١٩٢٧ء، آیات وجدانی، ٩٣ )
٤٣ - آنکھ اچٹنا
نیند اڑ جانا، جاگ پڑنا۔ شب کی جاگی ہوئی شبنم کو جو نیند آتی ہے پتا ہلتا ہے تو آنکھ اس کی اچٹ جاتی ہے      ( ١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ٥ )
٤٤ - آنکھ ابلنا
آنکھ کا آشوب کرنا، آنکھیں دکھنے لگنا۔ ابلی ہوئی آنکھوں پہ رکھا دست مطہر آشوب اڑا مثل شمیم گل احمر      ( ١٩٧٤ء، رواں واسطی، مرثیہ، ١١ )
فرط غیظ سے یا جوش اور ولولے میں آنکھ کے ڈھیلوں کا سرخ ہو کر ابھر آنا۔ جاندار تھا اصیل تھا با عقل و ہوش تھا آنکھیں ابل پڑی تھیں یہ ایماں کا جوش تھا      ( ١٩٢٧ث، شاد عظیم آبادی، مراثی، ٦٤:٢ )
٤٥ - آنکھ اٹکانا
عشق کرنا، دل میں عشق کی کھٹک پیدا کرنا۔ اخوت سے کیا لبریز اقصائے زمانہ کو گیا زمزم سے دجلے تک اٹک سے آنکھ اٹکائی      ( ١٩٣٧ء، قصیدہ محشر لکھنوی، ٦ )
٤٦ - آنکھ اٹکنا
آنکھ اٹکانا کا فعل لازم ہے۔ بلبلیں اس پہ گریں آ کے کلی جو چٹکی گل سے آنکھ اٹکی تو کانٹے کی بھی برچھی کھٹکی      ( ١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ٣ )
٤٧ - آنکھ ڈبڈبانا
آنکھوں میں آنسو بھر آنا۔ خدمت کی ڈبڈبائیں آنکھیں تالا سا پڑا ہوا تھا منہ میں      ( ١٩٣٦ء، جگ بیتی، ٥٧ )
٤٨ - آنکھ سامنے نہ ہونا
شرم و حیا یا ندامت سے نظر نہ ملانا، دیکھ نہ سکنا۔ آئینے کے بھی سامنے آنکھیں نہیں ہوتیں قائل میں ہوا یار تری شرم و حیا کا      ( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٥٥ )
٤٩ - آنکھ سے اترنا
نظروں میں ذلیل ہونا۔'تمھاری تصویر دیکھ کے سارا مرقع آنکھوں سے اتر گیا۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٦١:١ )
٥٠ - آنکھ سے آنکھ لڑنا
نگاہیں چار ہونا، دیکھتے ہی عاشق ہونا۔'اس لڑکی کی بھی آنکھ اس برہمن مہرطلعت کی آنکھ سے لڑی۔"      ( ١٨٠١ء، طوطا کہانی، ٤٩ )
٥١ - آنکھ سے آنکھ (ملانا | ملنا)
ہم چشمی کا دعویٰ کرنا۔ رنگ آیا مے کشوں کے دل کی کلیاں کھل گئیں اک ذرا ساقی کی آنکھوں سے جو آنکھیں مل گئیں      ( ١٩٤٩ء، سلام قیصر، ٢٣ )
٥٢ - آنکھ سے پردہ اٹھنا
غفلت دور ہونا، بصیرت پیدا ہونا۔ آنکھوں سے اٹھے پردے تو بیداری میں دیکھا جیسے کوئی کہتا ہے کہ حر میری طرف آ      ( ١٩١٦ء، مرثیہ فہیم(باقر علی خاں)، ٧ )
٥٣ - آنکھ دبنا
شرمندہ احسان ہونا، جھیپنا؛ مغلوب ہونا۔ کیا رکیں گے یہ جری شام کے بے دردوں سے آنکھ دبتی نہیں دو لاکھ جوانمردوں سے      ( ١٩٦٩ء، مرثیہ یاور اعظمی، ١١ )
٥٤ - آنکھ دکھانا
غصہ کرنا، گھورنا، رکھائی یا بے مروتی برتنا، منع کرنا، زیر کرنا، اشارہ کرنا۔ شوق سے آنکھیں دکھاءو مجھے کچھ رنج نہیں شعبدہ یہ بھی تو اک گردش ایام کا ہے      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٨٨:١ )
٥٥ - آنکھ (دوڑانا | دوڑنا)
چار طرف دیکھنا، نگاہ کا سرعت سے ادھر ادھر پڑنا، لالچ کی نگاہ سے دیکھنا۔'بڑا ہی لالچی ہے ذرا سی چیز پر آنکھ دوڑتی ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٥٩:١ )
٥٦ - آنکھ دیکھنا
آنکھ کو دیکھ کر ارادے کا پتہ چلانا، فیض حاصل کرنا۔'ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے ہارون کی آنکھیں دیکھی تھیں اور اسلام کے سچے عاشق زار تھے۔"      ( ١٩١٨ء، امین کا دم واپسیں، ٧ )
٥٧ - آنکھ دینا
بینائی عطا کرنا، شعور بخشنا، گوشہ چشم سے اشارہ کرنا، شہ دینا۔ دیکھا نگہ غیظ سے ان فوجوں کے دل کو شمشیر گل اندام نے دی آنکھ اجل کو      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ٦ )
٥٨ - آنکھ ڈالنا
دیکھنا، شوق کی نظر سے دیکھنا، برے تیور سے دیکھنا، جستجو کرنا، بدنیتی سے دیکھنا۔ عشق کی غیرت سے یہ کیوں کر گوارا ہو سکے آنکھ ڈالیں غیر تم پر اور میں دیکھا کروں      ( ١٩١١ء، تسلیم، نظم ارجمند، ١٦٥ )
٥٩ - آنکھ بچا (کر | کے)
اس طرح کہ کوئی دیکھ نہ لے، چوری چھپے۔'پُلس کی آنکھ بچا کے اینڈتے پھرتے ہیں۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٦٦ )
بے مروتی کے ساتھ۔ جو تن سے اڑا دیوے ہے سر آنکھ بچا کر ایسے سے کوئی جائے کدھر آنکھ بچا کر      ( ١٩٢٦ء، معروف، دیوان، ٥٤ )
٦٠ - آنکھ بچانا
اس طرح کوئی کام کرنا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔'میں ایسی دولت پر لعنت بھیجتا ہوں اور آنکھ کس کی بچاءوں سب سیاہ سفید تو میرے ہاتھ میں ہے۔"      ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ١٤٨ )
٦١ - آنکھ بچنا
نظر چوکنا، ذرا سی دیر کو غافل ہونا۔'صاحبزادے کب کسی کے روکے رکتے ہیں آنکھ بچی اور چل دیے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٥٢:١ )
٦٢ - آنکھ بچھانا
تعظیم و تکریم کرنا، شوق اور احترام سے خوش آمدید کہنا، خاطر مدارت کرنا (بیشتر جمع مستعمل)'سب رشتے تڑا کر اپنے پلے باندھا دن رات آنکھیں بچھائیں۔"      ( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٤٢ )
١ - آنکھ پھڑکے بائیں بیر ملے یا سائیں آنکھ پھڑکے دہنی ماں ملے یا بہنی
بائیں آنکھ پھڑکے تو شوہر یا بھائی سے ملاقات ہوتی ہے اور دائیں آنکھ پھڑکنے پر ماں یا بہن سے؛ عورت کی بائیں اور مرد کی دائیں آنکھ کا پھڑکنا نیک شگون ہے۔ (ماخوذ : امیراللغات، ٢١٩:١)
٢ - آنکھ بچی مال (دوستوں کا | یاروں کا)
ذرا غفلت ہوئی اور لوگوں نے چیز اڑا لی، ذرا سی چوک میں مال تلف ہو گیا۔'چور اور گرہ کٹ بھی شکاری ہے آنکھ بچی اور مال یاروں کا یہی حال جعل ساز، دغاباز، عیار، مکار اور چار سو بیس قسم کے لوگوں کا ہے۔"      ( ١٩٥٨ء، عمر رفتہ، ٢٢٥ )
  • Eye