بار[1]

( بار[1] )
{ بار }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں اصلی معنی اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : بارْہا [بار + ہا]
١ - گرانی، وزن، بوجھ، بھار۔
"اس کے خون کی قیمت سو بار شتر چھوہارا تھی۔"    ( ١٩١٢ء، سیرۃ النبی، ٣٨٦:٢ )
٢ - بوجھل پن، دباؤ (جو طبیعت وغیرہ پر بار ہو)۔
 غرض ہو جو زہرہ پہ غصے کا دار نہ سنبھلے نزاکت سے سختی کا بار    ( ١٩١٠ء، قاسم اور زہرہ، ٢١ )
٣ - ذمہ داری، کفالت۔
"آپ صلہ رحم کرتے ہیں، مقروضوں کا بار اٹھاتے ہیں۔"    ( ١٩١٢ء، سیرۃ النبی، ٣٠٦:٢ )
٤ - قرض۔
"اس جائیداد پر بہت بار ہے۔"    ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٢٥:١ )
٥ - مرتبہ، دفعہ، نوبت۔
"دنیا میں کروڑوں آدمی ہیں جو ایک ہی بار کھاتے ہیں۔"      ( ١٩١٦ء، بازار حسن، ٧١ )
٦ - پھل، ثمر
 جس کو لطف قرب رب دو جہانی مل گیا اس کو گویا بار نخل زندگانی مل گیا      ( ١٩١١ء، نذر خدا، ٣١ )
٧ - اسباب، سامان (لادا جانے والا)۔
"ان اونٹوں کا بار رستے میں پھینک دیا۔"    ( ١٩٣٧ء، واقعات اظفری، ٧١ )
٨ - گٹھڑی، بنڈل، گانٹھ، راس، کھیپ۔
"کوئلے اور دھات اسی طرح مسلسل ڈالتے جاتے ہیں، ہر بار ٣٠ من ڈھلی ہوئی کجدھات کا ہوتا ہے۔"    ( ١٩٤٨ء، اشیائے تعمیر، ٢٣٣ )
٩ - ناگواری، اندوہ، کلفت۔
"بارشدائد سفر اپنے اوپر زیادہ کرنا عقل و دانش سے دور ہے۔"      ( ١٨٣٤ء، بستان حکمت، ٣٠٦ )
١٠ - [ بطور مذکر، مؤنث ]  دخل، رسائی، اجازت داخلہ، پیشی یا حاضری کا موقع۔
"ان لوگوں کو دربار نبوی کا نمونہ پیش نظر رکھنا چاہیے جہاں کافروں اور منافقوں تک کو بار ملتا تھا۔"      ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ١٤٣:٣ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع   : بارْہا [بار + ہا]
١ - لدا ہوا۔
"زربفت کے بوروں میں کچھڑی بھری ہوئی، ہزاروں ہاتھیوں پر بار۔"      ( ١٨٩٠ء، فسانہ دلفریب، ٣١ )
٢ - ناگوار، تکلیف دہ۔
 اے چرخ کمال بار ہوں گا تجھ کو آہوں سے سزائے سخت دو گا تجھ کو    ( ١٩١٧ء، رشید (پیارے صاحب)، رباعیات، ٦٨ )
٣ - مشکل، دشوار۔
 یومینا تو گوّال کی نار ہے اسے بھوند لیانا تو کیا بار ہے    ( ١٦٣٥ء، میناستونتی (قدیم اردو، ١٣٠:١) )
١ - بار دھرنا
ذمہ داری ڈالنا، ذمہ دار ٹھہرانا۔ جس بات کو مفید سمجھتے ہو تم کرو اوروں پہ اس کا بار نہ اصرار سے دھرو      ( ١٩٢١ء، اکبر الہ آبادی، گاندھی نامہ، ٨ )
٢ - بار رکھنا
"میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ. انقلاب ثریا کا تمام بار سیاح پر رکھ دوں۔"      ( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٨١ )
دخل رکھنا، دخیل ہونا۔ کیوں نہ مقبول ہوں اللہ کی سرکار میں ہم بار رکھتے ہیں شہہ پاک کے دربار میں ہم      ( ١٩٣٩ء، سلام واقف، یعقوب حسین واقف، ٣ )
٣ - بار سنبھالنا
ذمہ داری اپنے سر لینا، سرپرستی کرنا۔ نے دوست نہ شفیق نہ ہمدم نہ غمگسار فکر فکر اپنی اپنی کون سنبھالے کسی کا بار      ( ١٨٧٥ء، مونس، مراثی، ٢٠٢:١ )
٤ - بار کرانا
بار کرنا سے تعدیہ ہے اسباب سفر راحلوں پر بار کراءو پھر سب حرم پاک کو ناقوں پر بٹھاءو      ( ١٩٧٢ء، بدر الہ آبادی، مرثیہ، ٧ )
٥ - بار کھولنا
پڑاءو پر اترنا، لادو سواری سے سامان اتارنا، تجارتی سامان گٹھڑی صندوق وغیرہ سے نکالنا اس کارواں سرا میں کیا میر بار کھولیں یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٤٧ )
٦ - بار بٹانا
بوجھ یا تکلیف بانٹ لینا، ذمہ داری میں شریک ہونا۔ پیچ و تاب غم گیسو میں تن و جاں ہیں شریک یار بار الم یار بٹا لیتے ہیں      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان، ١٥٧ )
٧ - بار پانا
(پیشی یا حاضری کا) موقع پانا، داخل ہونا۔"خداوند نعمت. جو لوگ خوش قسمتی سے بار پاتے ہیں ان میں بعض بعض. بدخواہی کر جاتے ہیں۔"      ( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٥٤ )
دخیل ہونا، رسوخ حاصل کرنا۔"صحبت بد نے رنگ اثر جمایا، خوشامد خوروں نے مزاج میں بار پایا۔"      ( ١٨٨٧ء، جام سرشار، ١٧ )
٨ - بار دینا
پناہ دینا"میری یہی عرض ہے کہ دارو گیر قیامت میں مجھ کو بار دے۔"      ( ١٨٠٣ء، گل بکاءولی، نہال چند،٣ )
دخل جگہ یا اجازت دینا۔"چغل خوروں کو اپنی خلوت میں بار نہ دو۔"      ( ١٩٣٩ء، مطالعۂ حافظ، ١٢٨ )
پھل لانا، باآور ہونا۔ امید کے نخل نے دیا بار خورشید حمل ہوا نمودار      ( ١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ١٥ )
٩ - بار اترنا
فرض ادا ہونا، ذمہ داری پوری ہونا۔ اترا جو بار اور گراں بار ہو گئے آزاد یوں ہوئے کہ گرفتار ہو گئے      ( ١٩٤٧ء، سرود و خروش، ٢٢ )
١٠ - بار اٹھانا
بوجھ کا متحمل ہونا، ذمہ داری کا اپنے سر عائد کرنا۔"اپنے بچے کے لیے دایہ رکھنے کا بار نہ اٹھا سکتے تھے۔"      ( ١٩٣٣ء، میرے بہترین افسانے، ٤٤ )
ذمہ داری سے سبکدوش کرنا۔"میں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی کہ عورتوں کا بار مجھ سے اٹھا لیوے۔"      ( ١٩٢٤ء، تذکرتہ الاولیا، ٣٥٥ )
١١ - بار اٹھنا
بار اٹھانا کا فعل لازم ہے۔ ایک جان ناتواں سے کیوں کر اٹھتا بار غم موت کا پیغام تھا کم بخت یہ آزاد غم      ( ١٩٣٢ء، مانی، نقوش مانی، ١٣ )
١٢ - بار آنا
بار آور ہونا، پھل لگنا۔ اللہ تعالیٰ اک دانہ میں یہ تفصیل مضمر تھی کھلے گل، کونپلیں پھوٹیں، شگوفے نکلے بار آیا      ( ١٩٣٢ء، صوت تغزل، ٣ )
نوبت آنا، موقع ملنا (اثبات و نفی دونوں طرح)۔ اے ساقی فیاض، کرم اپنا دکھا اور گل کھلنے کی بار آئی ہے اک بار پھلا اور      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٣٧:٢ )
١٣ - بار کھینچنا
بوجھ کو برداشت کرنا، ذمہ داری اٹھانا یا لینا۔ گردن میں طوق پاءوں میں دہری ہیں بیڑیاں یہ بار کھینچتے ہیں کہیںایسے ناتواں      ( ١٩٦٥ء، اطہر گلدستۂ اطہر، ٥١:٢ )
١٤ - بار گزرنا
ناگوار ہونا، گورارا نہ ہونا۔"اس قدر ان کی قدرومنزلت جو ہوتی تھی اس کا ان پر بار گزرتا تھا۔"      ( ١٨٧٤ء، تہذیب الاخلاق، ٥٢٩:٢ )
١٥ - بار لانا
پھل دینا، پھلنا پھولنا۔ بار لایا نہ کبھی نخل محبت اے چرخ کیا نہیں ہے یہ شجر پھولنے پھلنے کے لیے      ( ١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ٢٧٨ )
١٦ - بار ملنا
داخلے کا موقع ہاتھ آنا، رسائی ہونا۔"سینکڑوں ہزاروں ہندی لفظ. جنہیں ادب میں بار نہیں ملا تھا اس خوبی سے. استعمال کیے ہیں کہ خاصے متین اور زیادہ سنجیدہ معلوم ہوتھے ہیں۔"      ( ١٩٣٣ء، خطبات عبدالحق، ٨ )
  • heavy
  • burdensome
  • hard to be borne