کچا

( کَچّا )
{ کَچ + چا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی" میں استعمال ہوتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : کَچّے [کَچ + چے]
جمع   : کَچّے [کَچ + چے]
١ - خام، نارسیدہ، ناپختہ (پکا کی ضد)۔
"میاں دُکھ تو جب ہو کہ اس کے کچے سم تراشیں، ہم تو پکے تراشتے ہیں۔"      ( ١٩٦٩ء، اردو کی پہلی کی کتاب، آزاد، ٨٣:١ )
٢ - جو اچھی طرح پکا نہ ہو، ادھ گلا، ادھ کچرا۔
"پھول کی بجائے آلو کے قتلے ڈال لیتے ہیں مگر وہ کچے رہ جاتے ہیں۔"      ( ١٩٤٤ء، ناشتہ، ٢٨ )
٣ - (چاندی سونے کے لیے مختص) خالص، کھرا جس میں کوئی ملاوٹ یا کھوٹ نہ ہو، اصلی (کھوٹا کا نقیض)
"زبان اردو، ابتدا، میں کچا سونا تھی۔"      ( ١٩٦٣ء، تحقیق و تنقید، ٥٠ )
٤ - ناتجربہ کار، نابالغ، نوعمر، کمسن۔
"اکثر کچے کھلاڑی جب سب ہار چکتے ہیں، بھری ہوئی جیبیں نوٹوں سے خالی ہو جاتی ہیں۔"      ( ١٩٢٤ء، خوانی راز، ٨١ )
٥ - نرم، نازک۔
 اگرچہ پری رخ ہے کنولی کچی ولے آدمیت میں پختی سچی      ( ١٦٨٢ء، رضوان شاہ و روح افزا، ١٥٥ )
٦ - حمل جس کی مدتِ مقررہ پوری نہ ہوئی ہو، وہ بچہ جو قبل از وقت پیدا ہو جائے۔
"کچا بچہ جس میں روح نہ پڑی ہو . اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٧٠:١ )
٧ - بیرونی اثرات، جو اصلی حالت میں دیر تک قائم نہ رہے، پانی یا کسی کیمیائی اثر سے تبدیل ہو جائے، ناپائیدار، جلد ماند پڑجانے والا۔
"چلمنوں پر سبز کچا رنگ . کر دیا جاتا ہے۔"      ( ١٩١٦ء، خانہ داری (معیشت)، ٣٧ )
٨ - غیر معتبر، غیر یقینی۔
"وہ تمام ایسے کچے حالات جو کم و بیش ان کو معلوم ہوتے ہیں، مجھے بتاتے چلے جاتے ہیں۔"      ( عیاروں کا عیار، ١٢١ )
٩ - ادنٰی، معمولی، گھٹیا، عارضی، غیر اہم، ناقابل توجہ۔
 ان کچے غموں سے دیکھ ہم ہیں آزاد واللہ کہ ہے ہوا پہ تیری بنیاد      ( ١٨٩٣ء، مکاشفات الاسرار، ٦٠ )
١٠ - پھوڑا جو پکا نہ ہو، زخم جو ہرا ہو۔
"موہن سنگھ کے زخم ابھی لچے ہیں، گو وہ اب خطرے سے باہر ہے۔"      ( ١٩٤٢ء، شکست، ١٣٩ )
١١ - ریت اور مٹی کا بنا ہوا، ناپختہ مکان، گارے کی چنائی کی ناپختہ تعمیر۔
"عورتیں کچے ٹوٹے مکانوں میں رہتی ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، آجاؤ افریقہ، ٦١ )
١٢ - جو ماہر یا کامل نہ ہو، مبتدی، اناڑی۔
"میں ابھی اس زبان میں کچا ہوں۔"      ( ١٩٣٧ء، خطبات عبدالحق، ٩٧ )
١٣ - ادھورا، تکمیل طلب، نامکمل، نیم یا کم۔
"جناب من . میں نے کچے حالات لکھے ہیں اور اس حصہ کا شائع کرنا مناسب نہ ہو گا۔"    ( ١٩٠٢ء، مکاتیب شبلی، ١٤٧:١ )
١٤ - ادھورا سیاہ ہوا، عارضی طور پر لمبے لمبے ٹانکوں سے سلا ہوا۔
"اس نے ناپ لے کر رکھ لیا اور کہا اتوار کی شام کو آنا اور پہن کر دیکھ لینا میں کچا کروں گا۔"    ( ١٩٧٣ء، جہان دانش، ٢٤٢ )
١٥ - کمزور، بودا۔
"یہ سن کر اسے ڈھارس ہو جائے گی، اس کا دِل بڑا کچا ہے، مجھے یاد کرکے روز روتا ہو گا۔"      ( ١٩١٦ء، بازار حسن، ٣٠٨ )
١٦ - [ طب ]  زکام جو اخراج کے لیے پوری طرح تیار نہ ہو، نزلہ جو پکّا نہ ہو۔
"ادھر تحریک ہوئی نہیں کہ ادھر سے کچے زکام کی طرح سارا مادہ جھاڑ دیا جائے گا۔"      ( ١٩٠٧ء، انتخاب فتنہ، ریاض خیر آبادی، ١٩٨ )
١٧ - بغیر بٹا ہوا دھاگا (سوت اور دھاگے کے لیے)۔
"زندگی اور موت کے درمیان کچے دھاگے میں لٹکے ہوئے چند لمحوں کی حالت دستوٹیفسکی سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔"      ( ١٩٨٠ء، دستوٹیفسکی، ٦٧ )
١٨ - بغیر پکایا یا بغیر ابالا ہوا (اناج یا دودھ وغیرہ)۔
"بڑھیا نے کہا میں مرہٹن ہوں اور تم میرے ہاتھ کا کھانا کھاؤ گے نہیں، چلو میں کچا سامان دیتی ہوں۔"      ( ١٩٢٢ء، غریبوں کا آسرا، ٣١ )
١٩ - تر، گیلا، (سوکھا کی ضد)۔
 سو اس مکہ نے جاں لگ جو پھوکے جلے کچا ہور سکا اس تے مل کر جلے      ( ١٦٤٥ء، قصہ بے نظیر، ٧٣ )
٢٠ - وہ پیمانہ، جو حال کے رواج سے کم ہو جیسے کچا سیر، کچا من وغیرہ۔ (ماخوذ: نوراللغات)
٢١ - وہ خط یا تحریر جو ابتدائی حالت میں ہو، جس میں پختگی نہ ہو۔
"ایک خط نہایت ہی کچے زنانہ خط میں لکھا ہوا تھا۔"      ( ١٩٦٩ء، افسانہ کر دیا، ١١ )