در

( دَر )
{ دَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم مجرد ہے۔ اوستائی زبان اور سنسکرت زبان میں 'دوار' اس کے مترادف استعمال ہوتا ہے ١٥٦٤ء کو سب سے پہلے حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دَروں [دَروں (و مجہول)]
١ - دروازہ، پھاٹک۔
"باہر کے دالان میں بیچ کے در چھوڑ کے سنگ مرمر کا کہٹرا لگایا ہے"      ( ١٩٠٣ء، چراغ، دہلی، ٣٢٧ )
٢ - چوکھٹ، دہلیز، آستاز۔
 ان کے در تک ہوئی پذیرائی جذب دل اور کار فرمائی
٣ - دالان یا دروازے کا ستون، کھمبا۔
"گھر کی پلی ہوئی بلی طوطے پر لپکی کالو کتا جو پرانی نواڑ سے دالان کے در سے بندھا ہوا تھا اس نے جٹکا دے کر نواڑ تڑا بلی پر چلا"      ( ١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نااہل پڑوس، ١٣ )
٤ - پہاڑ کا راستہ، درّہ۔
"ان یورشوں کا مقصد درد انیال کے اس پار سلطنت عثمانیہ کا قیام نہ تھا"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٢٦:٣ )
٥ - طریقہ، ذریعہ، راستہ۔ (جامع اللغات؛ علمی اردو لغت)
٦ - مضمون، باب کتاب۔
"یہ باغ خوش نما. مانند بہشتِ ارجمند کے آتھ در میں مرتب ہوا"      ( ١٨٤٤ء، ترجمۂ گلستان، حسن علی، ١٠ )
٧ - قسم؛ نوبت؛ درجہ باری، وادی، دامن پہاڑ، پہاڑ کی چوٹی؛ ایک جنگلی پرندہ؛ مچھر؛ ایک سیاہ بیر کی قسم۔ (جامع اللغات)
١ - دَر اٹھانا
دروازہ لگانا؛ رکاوٹ کھڑی کرنا۔ چاہے تعمیر دل جو ساتھ اٹھا لے جائے گا یوں خرابی کے لیے دیوار اٹھا یا در اٹھا      ( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ٢٢:١ )
٢ - دربدر پھرنا
دروازے دروازے پھرنا، آوارہ پھرنا، کوچہ گردی کرنا۔"اس کی تلاش میں دربدر پھرا ہوں"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٥١۔ )
بھیک مانگتے پھرنا۔ (فرہنگ آصفیہ)
٣ - دربدر کرنا
دردر پھرانا، جگہ جگہ کی ٹھوکریں کھلوانا، آوارہ و سرگرداں کرنا؛ خراب و خستہ کرنا۔ نہ بیٹھیں کبھی چین سے اپنے گھر میں الٰہی ہمیں دربدر کرنے والے      ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، ناراین پرشاد ورما، ١٤٧۔ )
٤ - درپر بیٹھنا
دروازے پر جم جانا، دھرنا دے کر بیٹھ جانا، در پر پڑنا۔"میر کی مثنوی دریائے عشق" میں ایک جوان غرضے میں کسی مہ پارہ کو دیکھ کر عاشق ہو جاتا ہے اور راسخ کے جوان کی طرح وہیں دَر پر بیٹھ جاتا ہے"      ( ١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو، ٩٥٧:٢،٢۔ )
٥ - در پر دستک دینا
دروازہ کھٹکھٹانا، کنڈی بجانا؛ کسی کے ہاں جانا۔ آئی تھی کیا کیا ارماں لے کر مل نہ سکی دیوانے سے خالی در پر دستک دے کر لوٹ گئی تنہائی بھی