"محب عارفی نے صداقتوں کو پرکھنے کے لیے ہر تسلیم شدہ صداقت، رائج الوقت کلیہ اور خیر کی مانی ہوئی علامتوں کو الٹ کر اصل حقیقت کا پتہ چلانے کی کوشش کی ہے۔"
( ١٩٨٢ء، برش قلم، ٤٠ )
٢ - اچھائی، بہتری، خوبی۔
دعا تو خیر دعا سے امیدِ خیر بھی ہے یہ مدعا ہے، تو انجام مدعا معلوم
( ١٩٤١ء، فانی، کلیات، ١١٩ )
٣ - امان، سلامتی۔
نہ خود کو پناہ نہ اس سے سپر کی خیر۔ چار آئینہ سے لاگ تھی اس کو سپر سے بیر
( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٥٥:١ )
٤ - عافیت، خیریت۔
"سید صاحب نے مسٹر بیگ سے اس کا ذکر کر دیا تو میری خیر نہیں۔"
( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٦٥ )
٥ - وہ شے جو فی سبیل اللہ کسی مستحق کو دی جائے، خیرات۔
لگا کرنے وہ خیر اور خیرات دیتا زر جوگیوں کے تئیں دن رات
( ١٧٩٥ء، حسرت، طوطی نامہ، ١١٢ )
٦ - نعمت، برکت۔
بہت شاہ ہیں اپنے کشور میں آج نہیں خیر ایسی کسی گھر میں آج
( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٣٥٩ )