خیر

( خَیر )
{ خَیر (ی لین) }
( عربی )

تفصیلات


خیر  خَیر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق مصدر ہے۔ اردو میں بطور اسم، صفت، حرف اور شاذ متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف ایجاب ( واحد )
١ - اچھا، ٹھیک ہے، بجا درست، یوں ہی سہی، مضائقہ نہیں۔
 باتیں ہماری خیر خرافات ہی سہی ہم نے تو اب تک آپ کی ہر بات ہی سہی      ( ١٩٨٤ء، قہر عشق، (ترجمہ)، ٦٥ )
حرف نفی
١ - بس اور کچھ نہیں۔
 ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن میں جو پہونچا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا      ( ١٧٨٤ء، درد، دیوان، ٢٤ )
اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : خَیرات [خَے + رات]
١ - نیکی، بھلائی۔
"محب عارفی نے صداقتوں کو پرکھنے کے لیے ہر تسلیم شدہ صداقت، رائج الوقت کلیہ اور خیر کی مانی ہوئی علامتوں کو الٹ کر اصل حقیقت کا پتہ چلانے کی کوشش کی ہے۔"    ( ١٩٨٢ء، برش قلم، ٤٠ )
٢ - اچھائی، بہتری، خوبی۔
 دعا تو خیر دعا سے امیدِ خیر بھی ہے یہ مدعا ہے، تو انجام مدعا معلوم    ( ١٩٤١ء، فانی، کلیات، ١١٩ )
٣ - امان، سلامتی۔
 نہ خود کو پناہ نہ اس سے سپر کی خیر۔ چار آئینہ سے لاگ تھی اس کو سپر سے بیر      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٥٥:١ )
٤ - عافیت، خیریت۔
"سید صاحب نے مسٹر بیگ سے اس کا ذکر کر دیا تو میری خیر نہیں۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٦٥ )
٥ - وہ شے جو فی سبیل اللہ کسی مستحق کو دی جائے، خیرات۔
 لگا کرنے وہ خیر اور خیرات دیتا زر جوگیوں کے تئیں دن رات      ( ١٧٩٥ء، حسرت، طوطی نامہ، ١١٢ )
٦ - نعمت، برکت۔
 بہت شاہ ہیں اپنے کشور میں آج نہیں خیر ایسی کسی گھر میں آج      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٣٥٩ )
صفت ذاتی ( واحد )
١ - نیک، خوب، اچھا۔
"کردار کے بعض اقسام کو صائب و خیر اور ان کے مخالف اقسام کو خطا و شر کہتے ہیں۔"      ( ١٩٣٥ء، علم الاخلاق، ١ )
٢ - غنیمت، کافی، واہ واہ۔
 کٹ جائے دن جو خیر سے تو خیر جانیے اُٹھے ہیں آج دیکھ کے منہ وہ رقیب کا      ( ١٩٠٣ء، سفینۂ نوح، ٨ )