اچھا

( اَچّھا )
{ اَچھ + چھا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اردو میں داخل ہوا۔ سنسکرت میں 'اَچھَّ' رائج تھا اور اردو میں سب سے پہلے ١٦٥٧ء "گلشن عشق" میں استعمال ہوا۔

حرف فجائیہ
١ - تنبیہ یا تاکید کے لیے عموماً بطور استفہام تاکیدی، گاہے مکرر، مترادف : سمجھے، سنا، مانو گے نہیں وغیرہ۔
 مجھے اس درد میں لذت ہے اے جوش جنوں، اچھا میرے زخم جگر کے ہر گھڑی ٹانکے ادھیڑے جا      ( ١٨١٨ء، کلیات، انشا، ٧ )
٢ - ایجاب، اقرار یا جواب ندا کے طور پر، مترادف : بہت خوب، ٹھیک، سن لیا، سمجھ گئے وغیرہ۔
"اچھا! تو اب آپ جسے چاہیں والی بنا کر بھیجیں"      ( ١٩٢٦ء، مضامین، شرر، ١٩٩:٣ )
٣ - اضطراب کے لیے، مترادف : خیر، بارے وغیرہ
 اس بے وفا سے قاصد اب کیا پیام کہنا جاتا ہے تو، تو اچھا میرا سلام کہنا
٤ - تہدید کے لیے، دھمکی کے لیے، مترادف : دیکھا جائے گا، سمجھ لیں گے، وغیرہ
 ہم سے اتنا غرور اچھا سمجھے رہیے حضور اچھا      ( ١٨٨٧ء، ترانہء شوق، ٢٤ )
٥ - استیناف یا عارضی رکاوٹ کے بعد بات کا سلسلہ ملانے کے لیے۔
"اچھا فرض کیا اسلام جاتا رہا تو کس کا"      ( ١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ١٥١ )
٦ - استعجاب کے موقع پر استفہاماً (عموماً الف کو کھینچ کر) مترادف : ایسا ہے، یہ بات ہے وغیرہ۔
 اچھا! جہاد کی علی اکبر کو دی رضا انصاف کیجیے مجھے خلقت کہے گی کیا
٧ - استرضا یا طلبِ اذن کے جواب میں، مترادف : ہاں اجازت ہے، تم ایسا کر سکتے ہو، وغیرہ۔
"اجازت دیجیے کہ میں بھی ہم رکاب ہوں، سرور عالم نے فرمایا، اچھا"۔      ( ١٩٢٩ء، آمنہ کا لال، ٩٤ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اَچّھی [اَچھ + چھی]
جمع   : اَچّھے [اَچھ + چھے]
جمع غیر ندائی   : اَچّھوں [اَچھ + چھوں (و مجہول)]
١ - [ طنزا ]  بزرگ، ولی، حاکم یا پشت پناہ۔
"اجی! تم سمجھو یا تمھارا اچھا سمجھے"      ( ١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ١٥٧ )
٢ - شریف، نیک، خوش اطوار (اکثر جمع یا مغیرہ صورت میں)
 اچھوں سے الجھتے ہیں وہ اکثر جو برے ہیں اچھے تو بروں کی بھی شکایت نہیں کرتے      ( ١٩١٥ء، کلام محروم، ١٢٧:١ )
٣ - حسین، دلربا، معشوق (بیشتر جمع یا مغیرہ صورت میں)
 چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے      ( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ٢٢٢ )
٤ - اطمینان، مسرت یا خیر و خوبی کے ساتھ۔
 دکانِ مے فروش پہ سالک پڑا رہا اچھا گزر گیا رمضاں بادہ خوار کا      ( ١٨٧٩ء، کلیات، سالک، ٤٩ )
٥ - جزا سے پہلے شرط محذوف کا قائم مقام، مترادف : اگر ایسا ہے، اگر یوں ہے، اگر ٹھیک ہے وغیرہ۔
"اچھا تو آ تجھ سے وہ بھی کہوں"      ( ١٩١٣ء، انتخاب توحید، ١٥ )
٦ - (اتمام حجت کے لیے) مترادف : بس، خیر، چلو، چھوڑو، یونہی سہی۔
 اماں کا برا حال ہے پھر آئیے بابا اچھا میں نہ بولوں گی چلے جائیے بابا      ( ١٨٧٥ء، مراثی، مونس، ٣٤:٣ )
٧ - خوبی سے، عمدگی سے، اچھی طرح
"نسیمہ کو جتنا اچھا اٹھاتی کم تھا"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٠٠ )
٨ - [ طنزا ]  نامناسب، نازیبا
"بھئی واہ، اچھا میاں کا سوگ کرتی ہے"      ( ١٩٠٩ء، خوبصورت بلا، ٨٣ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اَچّھی [اَچھ + چھی]
جمع   : اَچّھے [اَچھ + چھے]
جمع غیر ندائی   : اَچّھوں [اَچھ + چھوں (و مجہول)]
١ - بھلا لگنے والا، جو ذوق یا طبیعت یا حواس کو بھائے، خوب عمدہ، پسندیدہ، خوشگوار
"اردو مترادفات کا کام بہت اچھا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ مترادف الفاظ کے معنی میں جو نازک فرق ہیں وہ بھی بتا دیے جائیں"۔      ( ١٩٤٦ء، خطوط، عبدالحق، ٧٦ )
٢ - عمدہ اوصاف والا، جس میں موزوں یا مناسب خصوصیات پائی جائیں، قابل ستائش۔
"میرے پاس ایک ایسا اچھا سرمہ ہے کہ کور مادر زاد کو بینا کرتا ہے"۔ ١٨٩٦ء، نظم بے نظیر، ٥٨
٣ - تندرست، بھلا چنگا، صحت مند
"میں سب طرح اچھا ہوں"۔      ( ١٩٢٣ء، خطوط، عبدالحق، ٢٤ )
٤ - مرض سے نجات پانے والا، شفایاب۔
"اگر تم چاندی کے برتن میں پانی پیو تو تمہارا ہاتھ اچھا ہو"۔      ( ١٨٠١ء، داستانِ امیر حمزہ، ١٤٢ )
٥ - (مقابلۃً) عمدہ، زیادہ موزوں و مناسب، بہتر، خوب تر، افضل، دوسرے سے بڑھ کر۔
 اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے      ( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ٢٣٩ )
٦ - درست، سالم، ٹھیک، صحیح، خرابی یا عیب سے خالی
 نو شعر جان تم نے کہے وہ بھی سب برے اچھا بندھا نہ ایک بھی پہلو سے ارتباط      ( جان صاحب (مہذب اللغات، ١٢٦:١) )
٧ - خاصا، متوسط درجے یا حیثیت کا، معمولی سے کچھ بڑھ کر۔
"کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے اور اچھے خوشحال آدمی تھے"۔      ( ١٨٩٩ء، رویائے صادقہ،١٥٠ )
٨ - مبارک، مسعود (دن، ساعت وغیرہ)
"اس سے اچھا دن اور ایی نیک ساعت کب ہو گی"۔      ( ١٨٠٢ء، خرد افروز، ١٠٥ )
٩ - احترام یا پوجا کے قابل۔
"ہندو انھیں اچھا جانتے ہیں اور بعض جگہ مارنے کی ممانعت بھی کرتے ہیں"۔      ( ١٨٦٩ء، اردو کی دوسری کتاب، آزاد، ٩ )
١٠ - زور دار، بھرپور، خاطر خواہ۔
 جیسی کالی تھی شب غم کی گھٹا ویسا ہی اشکوں کا مینہ اچھا پڑا      ( ١٩٣٣ء، تجلائے شہاب ثاقب، ٧٢ )
١١ - خالص، معیاری، گراں قدر۔
"دو چار دن تو دودھ اچھا ملتا، پھر آمیزش شروع ہو جاتی"۔      ( ١٩٣٦ء، واردات، پریم چند، ١٤٧ )
١٢ - زیادہ، بہت، کسی خصوصیت میں نمایاں۔
"اس صوبے میں ایک عیب تو اچھے پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر عوام تک میں ہے"۔
١٣ - مناسب، موزوں، ٹھیک، زیبا، سجتا، جچتا ہوا۔
"(ایسے) لوگوں سے کنارہ کرنا ہی اچھا ہے"      ( ١٨٠٢ء، خرد افروز، ٢٦ )
١٤ - مفید، موافق، سزاوار۔
"یہ تو اچھا ہوا کہ مجھے ہوش آ گیا اور سر پر پانوں رکھ کر بھاگا"
١٥ - [ طنزیہ ]  برا، بے ڈھب، نازیبا، نا مناسب، غیر موزوں۔
 تیرا مریض مر ہی گیا تین دن کے بعد اچھا اثر دوا نے کیا تین دن کے بعد      ( ١٨٥٦ء، کلیات، ظفر، ٤١:٤ )