دور

( دَور )
{ دَور (و لین) }
( عربی )

تفصیلات


دور  دَور

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف زمان ( مذکر - واحد )
جمع   : اَدْوار [اَد + وار]
جمع غیر ندائی   : دَوْروں [دَو + روں (و مجہول)]
١ - زمین و آسمان کو محوری گردش، چکر۔
 نمودان کی بھی دورِ سبو میں تھی کل رات ابھی جو دور تہِ آسماں نہیں گزرے      ( ١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٦٥ )
٢ - شراب کے پیالے کی گردش۔
 یہ کس "پرویز" کی محفل کا ساغر دور میں آیا یہ کس عشرت کدے میں باربدنے ساز دہکایا    ( ١٩٥٨ء، نبضِ دوراں، ١٨٢ )
٣ - شراب نوشی کی محفل، میخانے کا مجمع۔
 جو دو اٹھے تو پچاس آکے دور میں بیٹھے نہ کم ہوا کبھی مجمع شراب خانے کا    ( ١٩٢٢ء، دیوان جگر (افتخار علی)، ٢٦ )
٤ - باری، نوبت، دور۔
 دور پورا ہو چکا ہے شعر خوانی کا مگر حکم ہے پبلک کا شاعر کچھ دوبارہ بھی سنائیں      ( ١٩٨٢ء، ط، ظ، ١٠٠٢ )
٥ - احاطہ، گھیرا، موٹائی، دائرہ۔
"میں نے جیب سے ٹیپ نکال کر سینگوں سے پہلے اس ٹوٹے ہوئے درخت کا دور ناپا۔"    ( ١٩٣٢ء، قطب یار جنگ، شکار، ٢٦٣ )
٦ - حلقہ نما دائرہ گولائی میں کوئی تعمیر۔
"ایک موصل تار کے ذریعہ بیرونی دور میں برقیرہ (Cathade) پر پہنچ جاتے ہیں۔"    ( ١٩٧٠ء، برقی کیمیا، ٧٤ )
٧ - طواف، گرد پھرنا۔
 دورِ ہر نخل کریں گے صفتِ گردِ نسیم ہم پسِ مرگ بھی قربانِ گلستاں ہو گے    ( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ٢١٢ )
٨ - چکر، پیچ، (زلف وغیرہ کا)۔
 یہ دور و تسلسل زمانہ یا کاطلِ شاہد یگانہ    ( ١٩٢٨ء، تنظیم الحیات، ٥ )
٩ - [ خوش خطی ] دائرہ حروف کرسی، دامن۔
"اس میں حرفوں کے جوڑ توڑ کی نزاکتیں، دامن اور دائروں کا دور، نوک پلک کی باریکیاں اتنی ہیں کہ گھنٹوں میں چند سطریں لکھی جا سکتی ہیں۔"    ( ١٩٥٧ء، اردو رسم الخط اور طباعت، ١٧ )
١٠ - حاشیہ، کنارہ، گھیر، چاک۔
 خاکِ و حشی سے اگر ربط ہے ٹھوکر کو تیری دورِ دامن سے نہیں دور گریباں ہونا      ( ١٨٧٩ء، کلیات قلق میرٹھی، ١٢ )
١١ - سلسلہ، تسلسل۔
"اور جب آخر میں دور ختم ہوتا ہے تو پھر پہلے دور کا نئے سرے سے آغاز ہوتا ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، مناظر احسن گیلانی، عبقات، ٢٩٧ )
١٢ - قسمت کا چکر، انقلاب، تخیئر، گردش۔
 دیتا ہے دورِ چرخ کسے فرصتِ نشاط ہو جس کے پاس جام وہ اب جم سے کم نہیں      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٢٣ )
١٣ - عہد حکومت، اقتدار کا زور، عمل، سلطنت۔
 تنہائی، دشمنوں کی جفا، ظالموں کا جور جو بانی فساد تھے ان حاکموں کا دور    ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٢٧:٢ )
١٤ - [ مجازا ] شہرت، مقبولیت، برتری کا زمانہ۔
 زمانے نے لی ایک کروٹ جو اور ہوا غالب و ذوق و مومن کا دور    ( ١٩٢٢ء، مطلع انوار، ١٦٧ )
١٥ - زمانہ، عہد، وقت۔
"ہر دور میں ان کے اعزازات میں ترقی ہوتی گئی۔"    ( ١٩٨٦ء، فاران، کراچی (جون)، ١٩ )
١٦ - طویل مدت، زمانہ دراز۔
 جو میں ہوں بُذا موسٰی کے دور کا خبر دے منجے اپنے توں ٹھور کا    ( ١٦٤٩ء، خاورنامہ (بورڈ)، ٩١ )
١٧ - [ سائنس ] مقررہ منزل تک چکرانے کا عمل۔
"چونکہ اس کا ایک دور (Cycle) اپنے سے پہلے والے دور سے عین مماثلت رکھتا ہے۔"    ( ١٩٧٤ء، حرارت، ٦١٥ )
١٨ - [ مذہب ] تسبیح کرنا، شمار کرنا۔
 چھوڑیں گے نہ اس خاک کی تسبیح کو دانہ دور اس کا نہ کم ہوئے گا جبتک ہے زمانہ    ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی: ٣٦٥ )
١٩ - [ فلسفہ ]  دعوے کے ثبوت میں پیش کی جانے والی دلیل جس کا ثبوت خود دعوے کے ثبوت پر منحصر ہو۔
"دلیل جو ثبوت دعوی میں پیش کی جائے خود اس کا ثبوت منحصر ہو ثبوت دعوی پر، اسی کو دور کہتے ہیں۔"      ( ١٨٧١ء، مبادی الحکمہ، ١٣١ )
٢٠ - مضامین کے لحاظ سے کسی تصنیف یا تالیف کے بڑے حصے جن پر اسے تقسیم کیا جاتا ہے، اسباق۔
"ان دوروں کے لحاظ سے کتاب تین حصوں پر منقسم ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، شعرالعجم، ٤:١ )
٢١ - [ ہئیت ]  سالِ شمسی کا عرصہ، 365 دن کی مدت۔
"یہ جو ظاہرا سورج چھہ مہینے تک . طلوع ہوتا نظر آتا ہے اس کی اصلی وجہ زمین کا سالانہ دور ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، جغرافیۂ عالم (ترجمہ)، ١٩:١ )
٢٢ - پھیلاؤ، وسعت۔
"دور کا نوے فرسنگ کا ہے۔"    ( ١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٢١٤ )
٢٣ - عرض و طول، حدودِ سلطنت۔
"کس پائے کا وہ بادشاہ ہے جس کا فرمان اتنے دور میں جاری ہے۔"    ( ١٨٤٨ء، تاریخ ممالک چین (ترجمہ)، ٣٢٤:٢ )
٢٤ - (کسی چیز کا) چار اطراف، ہر چہار طرف۔
"ایک مکان بہت بڑا علیشان مُدَوِّر دیکھا جس کے دور میں دس مکان نیلگوں . بنے ہوئے تھے۔"      ( ١٨٤٢ء، الف لیلہ، عبدالکریم، ٧٥:١ )
٢٥ - [ اسلامیات ] قرآن یا احادیث کو یاد رکھنے کے لیے بار بار دہرانا؛ (کسی کو) حافظے سے سنانا۔
"دور میں سورۂ یوسف کے پڑھنے کا بھی اتفاق ہوتا تھا۔"    ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ١٦٨ )
٢٦ - کسی کتاب وغیرہ کا معمول کے طور پر (روزانہ) پڑھا جانا۔
"آخر زمانے میں مثنوی مولانا روم کا دور رہتا تھا۔"    ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٠١ )
٢٧ - سبق کو دہرانا تاکہ یاد ہو جائے۔
"سات برس کی عمر میں قرآنی شریف حفظ کر لیا حافظہ ایسا تھا کہ سال بھر تک دور نہیں کرتے تھے۔"    ( ١٩٢٩ء، تذکرۂ کاملانِ رامپور، ٣٢٣ )
٢٨ - فرقۂ میو لیوی کا ناچ جو ان کے مذہبی رسوم کے بعد کیا جاتا ہے یہ رقص دو گھنٹے تک رہتا ہے اس عرصہ میں دو مرتبہ وہ تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں اور اس عرصہ میں شیخ مختلف نمازیں پڑھتا ہے جب وہ ناچ ختم ہونے کو ہوتا ہے شیخ بھی ان میں شامل ہو جاتا ہے۔
"فرقہ میولیوی کا ناچ خاص قسم کا ہے جو اوروں کے ناچ سے نہیں ملتا وہ اس کو بجائے دور کے سمع کہتے ہیں۔"      ( ١٨٨١ء، کشاف اسرار المشائخ، ٢٦٨ )
٢٩ - [ تصوف ]  "دور نہائت سلوک کو کہتے ہیں کہ انھایت ہی الرجوع الی البدایت" یعنی نہایت وہی ابتدا کی طرف پلٹنا ہے۔ (مصباح التعرف، 119)
٣٠ - [ مجازا ] خوشحالی کا زمانہ، فراغت کا وقت۔
 گردش نہ رہی ہے نہ سدا دور رہا ہے دنیا کا ہمیشہ سے یہی طور رہا ہے    ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٩٥:٢ )
٣١ - نحوست، برا وقت۔
 واہ ری گردش تقدیر اسے کہتے ہیں دور ایک محبوب قمر وش پہ دل آیا فی الفور    ( ١٨٦٥ء، ناظم (شعلۂ جوالہ، ٦١:١) )
٣٢ - حصہ، وقت۔
 سر میں جب ہوتا ہے چکر، رقص کا آتا ہے دور پھوٹ جاتی ہے جب آنکھیں دیکھنے لگتا ہوں اور    ( ١٩٥٣ء، سموم و صبا، ١٠٥ )
٣٣ - اہلِ سیاق کے نزدیک خرگوش۔
"زرِ سرخ اور سفید اور مسکوک کو مبلغ اور عدد لکھتے ہیں اور . آہو اور خرگوش کو دور . لکھتے ہیں۔"      ( ١٨٤٥ء، مجمع الفنون (ترجمہ)، ١٧٧ )
٣٤ - [ مجازا ]  انتظام، تقسیم۔
 مکمل منظم دور بست ہے عجب دور میں دور پیوست ہے      ( ١٩٥٨ء، تارِ پیراہن، ١٤٧ )
٣٥ - عمر، مدت، میعاد۔
"جہاں وہ چار دن قیام کرکے اپنی زندگی کا دور (Life cycle) مکمل کرلیتے ہیں۔"      ( ١٩٨٢ء، جانوروں کے متعدی امراض، ٩٢ )
٣٦ - [ منطق ]  ایک قسم کی دلیل بار بار پیش کرنا۔
"دور کے معنی ہیر پھیر کے ہیں چونکہ اس سلسلہ میں ہر پھر کر وہی پہلی چیز آجاتی ہے اس لیے دور نام رکھا گیا۔"      ( ١٩٢١ء، وضع اصطلاحات، ١٦٧ )
٣٧ - کسی شکل کے اضلاع کا مجموعہ؛ رفتار، چال، روش؛ رسی کا بل۔ (جامع اللغات)
٣٨ - برقی لہروں کی چال۔
"بجلی کے کسی دور کی وہ خاصیت جو بجلی کے بہاؤ میں مخالفت پیدا کرے اسالیت کہلاتی ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، ٹرانسسٹر کے کرشمے، ٢٤ )
٣٩ - [ عروض ]  شاعری میں وزن بحر سے متعلق طول۔
"امیر نے چوبیس بحروں میں تالیں ایجاد کی ہیں جن کے اقسام حسب ذیل ہیں بحرِ ہنزج، بحر ترکی، بحر دومک، بحر دور . بحرِ ثقیل۔"      ( ١٩٦٠ء، حیات امیر خسرو، ١٨٥ )
٤٠ - [ مجازا ]  شاہی رجسڑ، سرکاری کتاب۔
 شہ کی سنا نصرتی لفظ نوں یوں لیکھے دور کے دفتر اوپر شہد ہے ہر یک بچن      ( ١٨٧٤ء، نصرتی، چرخیات (قصائد نصرتی)،٣ )