عہد

( عَہْد )
{ عَہْد (فتحہ مجہول ع) }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٤٩ کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وقت، زمانہ، دور۔
"آج کے بعد یہ ماحول، یہ عہد، یہ دور سب کچھ ختم ہو جائے گا۔"      ( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ١٠ )
٢ - دنیا
 تو ذبح کرے جس کو اسے عہد ہی جانے قربان میں اس طرح کی قربانی بھی اچھی      ( ١٨٧٠ء، الماس درخشاں، ٣٣٩ )
٣ - حکومت یا سلطنت کی مدت، اقتدار۔
"عہد محمد شاہی میں عیاشی اور رنگینی بہت بڑھ گئی تھی۔"      ( ١٩٨٧ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ٥٩ )
٤ - قول و قرار، قسم؛ وعدہ۔
 خیر اب کیسی شکایات، مگر عہد کرو اب مجھے آتش غم میں نہیں تڑپاؤ گے      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٦٧ )
٥ - باہمی فیصلہ، معاہدہ، باہمی اقرار۔
"عہد اس صورت میں معاملہ اور معاہدے کو کہا جاتا ہے جو دوشخصوں کے درمیان طے ہو جائے۔"      ( ١٩٦٩ء، معارف القرآن، ١١٣:١ )
١ - عہد کر لینا
پختہ عزم کر لینا، نیت باندھ نا، قسم کھا لینا، مصمم ارادہ کرنا، مستحکم ارادہ کر لینا، شرط باندھ لینا؛ چھوڑ دینا، ترک کر دینا، تیاگ دینا، قول و قرار کر لینا، وعدہ کر لینا، اقرار کر لینا، بچن ہارنا۔ (نور اللغات؛ فرہنگ آصفیہ؛ مخزن المحاورات)
  • injunction
  • charge
  • mandate;  will testament;  compact
  • contract
  • covenant
  • agreement
  • engagement
  • obligation
  • promise;  bond
  • league
  • treaty;  a vow
  • an oath;  time
  • season conjecture;  life time;  rein (of a king).