جنم

( جَنَم )
{ جَنَم }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے اور گا ہے بطور متعلق فعل مستعمل ہے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جَنْموں [جَن + موں (واؤ مجہول)]
١ - پیدائش، ولادت۔
"ساون بھادوں میں جنم ہو تو ہنر مند ہو۔"    ( ١٨٨٠ء، کشاف النجوم، ٤٤ )
٢ - آغاز، ابتدا۔
"جدید نثر اردو کا جنم فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں ہوا۔"    ( ١٩٦١ء، تین ہندوستانی زبانیں، ١٥٠ )
٣ - [ ہندو ]  زندگی کا ایک دور یا عرصہ جس میں اعمال کے نتیجے میں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ملتی ہے۔
"میں نے تیرے ساتھ کیا جانے کیا احسان اس جنم میں کیا تھا کہ اس احسان کے عوض میں تو یوں شکریہ ادا کرتا ہے۔"      ( ١٩٠٣ء، سرشار، بچھڑی ہوئی دلہن، ٦٥ )
٤ - اصل، نسل، خلقت، جبلت۔
 ریڑھ کی رکھتے ہیں ہڈی دو جنم کے جانور اور ان کی تین نوعیں پائی ہیں اب تک قرار      ( ١٩١٦ء، سائنس و فلسفہ، ٣٢ )
٥ - عمر، زندگی۔
 جو اللہ سوں نیہ نہ لایا جنم اکارت آپ گنوایا      ( ١٨٥١ء، مورک سمجاوے، ٢ )
متعلق فعل
١ - ہمیشہ، عمر بھر۔
 گھنا لے بال بالے کے بلال کی بیل ہیں گویا جنم عاشق کشی کرنا سکھی کے کھیل ہیں گویا      ( ١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٤٧ )