بال[1]

( بال[1] )
{ بال }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت کا لفظ ہے اردو میں سنسکرت سے ہی ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی عربی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ملتا ہے۔ ١٥٩١ء میں "رسالۂ وجودیہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی   : بالوں [با + لوں (واؤ مجہول)]
١ - رواں، رونگٹا، مو، پشم، ریشہ (حیوان یا نباتات کے جسم کا)۔
"پودے کے کسی حصے پر بال یا کانٹے نہ ہوں۔"      ( ١٩٦٦ء، چارے، ٥٥ )
٢ - وہ باریک خط یا شگاف جو شیشے چینی مٹی یا دھات وغیرہ کے برتن میں ٹھیس لگنے یا ٹکرانے سے پڑ جائے۔
 پر اہل چیں کے فرق پہ زخم جدال ہے ثابت ہوا کہ کاسۂ چینی میں بال ہے    ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٢١١:٧ )
٣ - لکیروں کے وہ نشان جو دھات یا شیشے وغیرہ میں بے احتیاطی کے ساتھ استعمال کرنے سے پڑ جاتے ہیں۔
"نوکروں نے اکثر حقوں میں بال ڈال دیے تھے۔"    ( ١٩٤٥ء، سفرنامۂ مخلص، دیباچہ، ٩ )
٤ - وہ دھاگا جس کے گرد مصری کی قلمیں جماتے ہیں۔ (ماخوذ : نوراللغات 542:1؛ جامع اللغات، 390:1)
٥ - بچہ، بالک، طفل نابالغ عموماً ترکیب میں مستعمل، جیسے : بال بچے وغیرہ۔
٦ - بال کی طرح کا باریک خط جو بعض جواہرات کے اندر دکھائی دیتا ہے۔
 در نجف کا ذکر مرے اشک کے حضور ہے اس میں بال رکھیے یہ لقمہ دین سے دور      ( ١٨٥٤ء، ریاض مصنف، ١٦٥ )
٧ - گیہوں جو باجرا وغیرہ کا خوشہ، بالی۔
"دھان کی بالوں میں شبنم کے موتی پروئے ہوئے تھے۔"      ( ١٩٥٨ء، خون جگر ہونے تک، ٢ )
٨ - ایک قسم کی بڑی جسیم مچھلی جو سمندروں میں پائی جاتی ہے۔
"ایک قسم کی مچھلی بال نام ہے اس کا طول قامت چار سو گز سے پانچ سو گز تک ہوتا ہے۔"      ( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات اردو، ١٨٥ )
١ - بال لینا
بڑھے ہوئے بالوں کو مونڈنا۔"اپنے بدن پر استرا پھیرنا حرام سمجھتے ہیں یہاں تک کہ لب، بغل اور سر وغیرہ کے بال تک نہیں لیتے"      ( ١٩٣٧ء، واقعات اظفری (ترجمہ) ٥٧۔ )
٢ - بال بڑھانا
بالوں کو بڑھنے دینا، بال نہ کٹوانا، منتی بال جو بچپن میں رکھے جاتے ہیں ان کو سیانا ہونے کے بعد مقرر رسم ادا کر کے منڈوانا، بچے کے مونڈن کی رسم ادا کرنا۔"انہیں دنوں میں سر کے بال بڑھانے کو بابا حسن ابدال کی درگاہ میں لے گئے تھے"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری،٩۔ )
٣ - بال بنانا
خط بنانا، حجامت بنانا۔ (فرہنگ آصفیہ، ٢٥:١؛ نوراللغات، ٥٤:١)
مانگ پٹی کرنا، سر کے بالوں کو کنگھی وغیرہ سے خمدار اور پرپیچ کرنا۔ اے بتو بال بنایا نہ کرو سانپ ہاتھوں پہ کھلایا نہ کرو      ( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ١١٦:١ )
٤ - بال بیکا کرنا
[ بنائی۔  ]  تھوڑا سا (بھی) صدمہ یا نقصان پہنچانا، ادنی آزاد دینا۔"روم چلے جائیے جہاں آپ آزادی سے رہیں گے اور کوئی آپ کا بال بیکا نہ کر سکے گا"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ٧٤:٢۔ )
٥ - بال بیکا ہونا
بال بیکا کرنا کا فعل لازم ہے۔"اگر اس کا ذرا بال بیکا ہوا تو میں اپنی جان دے دوں گا"      ( ١٩٤٥ء، الف لیلہ و لیلہ، ١٢٤:٦ )
٦ - بال پریشان ہونا
بال پریشاں کر کا فعل لازم ہے۔ غم کے جھونکے ہیں کہ مقتل سے چلے آتے ہیں خودبخود بال پریشاں ہوئے جاتے ہیں      ( ١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ٧۔ )
٧ - بال پکنا
بالوں کا سفید ہونا، (کنایۃً) بڑھاپا آنا۔"ایک ہندو بیوہ منوہری آئی جس کے بال پک چکے تھے"      ( ١٩٧٣ء، جہان دانش، ٢٩۔ )
٨ - بال ٹیڑھا ہونا
ذرہ بھر نقصان پہنچنا، کسی کا کچھ بگڑ جانا (کسی کے عمل سے) مضموں نہ بندھا موے کمر کا تو وہ بولے ٹیڑھا نہ ہوا شاعروں سے بال ہمارا      ( ١٨٧٠ء، دیوان مہر، الماس درخشاں، ٢٢۔ )
٩ - بال کھلنا
جوڑا کھل کر بالوں کا بکھرنا۔ (جامع اللغات، ٢٩١:١)
غم و الم کی شدت میں یا فریاد کے لیے بالوں کا بکھیرا جانا۔ سب اہل بیت گریۂ و زاری پر تل گئے زینب کے بال شام سے پہلے ہی کھل گئے      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ٢١۔ )
بے پردہ ہونا، سر سے چادر اترنا۔ سر سے ردائیں چھیننے کو فوج آئی ہے زینب کے بال کھلتے ہیں نانا دوہائی ہے      ( ١٩٢٩ء، مرثیۂ فہیم (باقر علی خاں)، ١٦۔ )
١٠ - بال کھچڑی ہونا
سیاہ بالوں میں جہاں تہاں سفیدی آ جانا۔"دس برس پہلے بھائی کو دیکھا تھا اس وقت ان کی داڑھی بھی تھی اور بال کچھڑی تھے"      ( ١٩٦١ء، ہالہ، ٣١٣۔ )
١١ - بال کھڑے ہونا
خوف، ڈر، ہیبت، دہشت، غیظ و غضب یا نفرت وغیرہ سے (جسم میں ایک سنسنی پھیل کر) رونگٹوں کا کھڑا ہو جانا۔"اک دود غلیظ تھا کہ کاخ دماغ کے پار ہو گیا، تمام بدن کے بال کھڑے ہو گئے"      ( ١٩٠٢ء، آفتاب شجاعت، ٤٣:١ )
١٢ - بال گوندھنا
مینڈھیاں بنانا، چوٹی بنانا، لمبے بالوں کی لڑوں کو ایک دوسرے میں ملا کر چوٹی کی شکل دینا۔ لاترے سر میں تیل ڈالوں میں گوندھ ر بال چوٹی کر دوں میں      ( ١٨٠٢ء، طوطی نامہ، حسرت، ٤٢۔ )
١٣ - بال سمیٹنا
کھلے ہوئے بالوں کو باندھنا۔ سمیٹو بکھرے بالوں کو جھٹک دو خاک دامن سے یہ کیا صورت بنائی ہے بس اٹھو میرے مدفن سے      ( ١٩٥١ء، آرزو، مہذب اللغات، ٢٢١:٢ )
١٤ - بال سے بال جدا کرنا
دقت نظر سے کسی چیز کی تلاش کرنا، بڑے انہماک سے چھان بین کرنا، ایک ایک چگز الگ کر کے ڈھونڈنا۔ زلف میں موئے کمر کی ہے تلاش بال سے بال جدا کرتا ہوں      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان (ق)، ٨٠۔ )
١٥ - بال کا (کمل / کمبل) بنانا
بات کا بتنگڑ بنانا، چھوٹی سی بات کو بہت بڑھانا۔"یہ کوئی سچ بات تھوڑی ہے، تجھے تو بال کا کمبل بنانا آتا ہے"      ( ١٩٦٢ء، آفت کا ٹکڑا، ٢٥٩۔ )
١٦ - بال کی کھال (اتارنا / کھینچنا / نکالنا)
ہندی کی چندی کرنا، دقت نظر سے تحقیقات اور چھان بین کرنا، موشگافی سے کام لینا۔"نیلوفر رانی بن چکی تھی ہر بات میں بال کی کھال نکالتی"      ( ١٩٦٣ء، معصومہ، ١٢٧ )
سخت جسمانی اذیت دینا۔ صدقہ حسین امام کا ایذا سے بچ رہوں لاغر بہت ہوں بال کی کھینچے نہ کھال دھوپ      ( ١٨٨١ء، اسیر، مجمع البحرین، ٤٠:٢ )
١٧ - بال چننا
موچنے یا چٹکی وغیرہ سے بال اکھاڑنا۔"بیگم، یہ دوچار سفید بال چن دو"      ( ١٩٢٥ء، گرداب حیات، ٥٤۔ )
١٨ - بال دھوپ میں (پکانا / سفید کرنا)
بڑھاپے تک ناتجربہ کار رہنا (بیشتر نفی میں مستعمل ہے) (نوراللغات، ٥٤٥:١) لاکھوں چنگے کیے ہیں خستہ حال دھوپ میں ہیں نہیں پکائے بال      ( ١٨١٠ء، ہشت گلزار (مہذب اللغات، ٢٢١:٢) )
١٩ - بال ڈالنا
باریک لکیر کھینچنا، چرکا لگاتا۔"حسن کی دیویاں انداز و ادا کی مالک جن کے بال قلب زاہد میں بال ڈال دیں"      ( ١٩٦٧ء، عشق جہانگیر، ٧٢۔ )
٢٠ - بال سفید ہونا
بڑھایا آنا ہر چندان کے بال ہوئے موبمو سفید پھوپھی ہیں سرخرو کہ نہیں ہے لہو سفید      ( ١٩٦١ء، مرثیۂ نسیم،٨۔ )
٢١ - بال بال بندھنا
خوب اچھی طرح جکڑا ہونا۔"جناب امیر کی قسم بال بال قرضے میں بندھی ہوئی ہوں بازار میں آدمی کا نکلنا دشوار ہے"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٤٣:١ )
٢٢ - بال بال خطاوار ہونا
بے حد قصوروار یا حد درجہ گناہگار ہونا۔ امیر لطف پہ آیا ہوں کبریا کی قسم میں بال بال خطاوار ہوں خدا کی قسم      ( ١٩٢١ء، مرثیہ بزم اکبر آبادی، ١٣۔ )
٢٣ - بال بال گرفتار ہونا
بے انتہا قرضے میں پھنسا ہونا۔"جب سے نوکری چھوٹی ہے بے چارے کا بال بال گرفتار ہو گیا ہے"      ( ١٩٥٨ء، مہذب اللغات، ٢١٩:٢ )
٢٤ - بال بال گہنگار ہونا
سراپا گناہوں میں آلودہ ہونا۔ غلط نہیں کہ گنہگار بال بال ہوں میں بدن پہ رونگٹے مجھ کو پئے حساب ملے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٢٠۔ )
٢٥ - بال بَرابر لگی نہ رکھنا
کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا، ذرا بھی کمی یا کوتاہی نہ کرنا۔ بے لاگ بات بال برابر لگی نہ رکھ فرما گئے ہیں حضرت خیرالبشر یہی      ( ١٩٣١ء بہارستان، ظفرعلی خان، ١١٤۔ )
٢٦ - بال بڑھنا
بال بڑھانا کا فعل لازم ہے۔"مغلانی کہتی ہے کہ چاند دیکھے صیف آباد چادر چڑھانے جا رہی ہو، وہیں بچے کے بال بڑھیں گے"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٤٣:٣ )
٢٧ - بال اکھڑنا
کچھ ہو سکنا، تدبیر یا کوشش کا کچھ بھی کارگر ہونا (عموماً طنزیہ نفی میں مستعمل)۔ پری خواں سے نہ اکھڑے گا یہاں بال رہے ملا سیانے وہ ہیں کیا مال      ( ١٨٦١ء، الف لیلہ نومنظوم، شایان، ٤١٧:٢ )
٢٨ - بال آنا
شیشے، چینی، مٹی یا دھات وغیرہ کے برتن میں چٹخنے سے نشان پڑنا۔ بچایا سنگدلوں سے جیب نے پہلو وگرنہ آئینۂ دل میں بال آ جاتا      ( ١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ٥١۔ )
نقص پیدا ہونا، سابق کے بالمقابل فرق آنا یا کمی ہونا۔ نہ وہ حیا نہ وہ چتون نہ وہ نگاہیں ہیں جوان ہوتے ہی بال آ گیا مروت میں      ( ١٩١٩ء، درشہوار، بیخود، ٦٣۔ )
پودے میں خوشہ نکلنا۔ شبنم زلف، نہ حاصل نہ خال کا بوسہ نہ بال آئی مرے کھیت میں نہ دانہ ہوا      ( ١٨٣٦، ریاض البحر، ٦٧۔ )
٢٩ - بال بال بچانا
خطرے کے بہت قریب پہنچ جانے کے باوجود محفوظ رکھنا، صدمے سے بالکل محفوظ رکھنا، بہت قریب سے بچا دینا، ذرا آنچ نہ آنے دینا۔ گناہ کر کے ہوا آپ انفعال مجھے بچا لیا تری رحمت نے بال بال مجھے      ( ١٩٦٥ء، اطہر جعفری، گلدستۂ اطہر، ٢١:٢۔ )
٣٠ - بال بال بَچْنا
بال بال بچانا کا فعل لازم ہے۔"کبھی خود اپنے کو خطرات میں ڈال دینے اور ان سے بال بال بچ نکلنے کے قصے ہیں"      ( ١٩٥٢ء، رفیق تنہائی،١٦٩۔ )
٣١ - بال اترنا
ازخود بالوں کا ٹوٹ ٹوٹ کر گر جانا"ایک طرف عورتیں بال بڑھانے کی فکر میں ہیں، جس کو دیکھو بال اترنے کا شاکی"      ( ١٩٢٤ء انشائے بشیر، ٣١٩۔ )
موتراشی ہونا، مونڈن ہونا۔ (نوراللغات، ٥٤٢:١)
٣٢ - بال اتروانا
بال اترانا کا فعل متعدی ہے۔"اگلے دن عید کی صبح مسنا میں کنکریاں پھینکیں، بال اتروا کر احرام اتار دیا۔      ( ١٩٠٧ء، اجتہاد (حاشیہ)، ٧٩۔ )
٣٣ - بال اکھاڑنا
جسم سے بال نوچنا، کسی اوزار (موچنے وغیرہ) سے جسم کا رواں چننا۔ (نوراللغاتخ ٥٤٣:١؛ جامع اللغات،٣٩٠:١)
١ - بال اکھاڑنے سے مردہ ہلکا نہیں ہوتا۔
معمولی کوشش سے کوءی بہت بڑا کام انجام نہیں پاتا۔ (اکثر طنزیہ نیز استفہام انکاری کے طور پر مستعمل)"اگر دوچر ہزار روپیہ جمع بھی ہو گیا تو کیا! بال اکھاڑنے سے کہیں مردہ ہلکا ہوتا ہے"      ( ١٩٢٩ء، اودھ پنچ، لکھنءو، ٩،٣٥:١١ )
  • female child
  • girl;  ear or spike of corn;  infant
  • child
  • boy
  • youth
  • minor;  colt;  five-year old elephant;  hair
  • a hair;  tail;  crack (in chiva or glass);  the thread on which sugar is crystallized;  a kind of perfume or fragrant grass;  wing
  • pinion;  arm;  state
  • condition
  • circumstances