لب

( لَب )
{ لَب }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے۔ اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٧٢ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : لَبوں [لَبوں (و مجہول)]
١ - انسانی جسم میں منھ کے دہانے کے دونوں کنارے، ہونٹ، شفت، کنارہ (عموماً بطور جمع مستعمل)۔
 جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہل ہوس مدح زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں    ( ١٩٥٢ء، دست و فا (نسخہ یائے وفا)، ١٤٢ )
٢ - کسی جانور یا حیوان کے ہونٹ۔
"بالائی "لب" ایک وسطی شگاف کے ذریعے دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے۔"    ( ١٩٨١ء، اساسی حیوانیات، ١٢٧ )
٣ - موچھوں کے وہ بال جو ہونٹ کے کنارے سے متصل ہوتے ہیں، اگر بڑھے ہوئے ہوں تو پینے کی چیز میں بھیگ جاتے ہیں (عموماً جمع میں مستعمل جیسے: لبیں بڑھ گئی ہیں)۔
"امام صاحب کی عمر ستر سال سے کچھ زیادہ ہی تھی سر منڈا ہوا، لبیں کتری ہوئی، تہ بند باندھے ہوئے، سبز عمامہ سر پر، لال تسبیح ہاتھ میں بدصورت، بد وضع، بدقطع۔"      ( ١٨٢٩ء، تمغۂ شیطانی، ٥٧ )
٤ - کسی شے کا کنارہ (عموماً دریا، ساحل، کاغذ یا کپڑے وغیرہ کا)، چاشیہ۔
"ملتحمہ میں عمودی شگاف دے کر زخم کے اندر لب کو اوپر اٹھاویں۔"      ( کتاب العین، ٦٠٥ )
٥ - [ مجازا ]  تھوک، لعاب دہن۔
"پانی کیا حضرت علی کا لب تھا کہ دوہی گھونٹوں میں پھوڑے کا پتا تک نہ رہا۔"      ( ١٩١٧ء، طوفان حیات، ٥٩ )
٦ - [ آب براری ]  مشک کے دہانے کا اوپر نیچے کا چمڑا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 202:1)
٧ - سموسے یا لقمی کے کنارے جو مسالا بھرنے کے بعد بند کر دیے جاتے ہیں۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 179:3)
٨ - [ مؤنث ]  دونوں ہاتھوں کی گنجائش، دونوں ہاتھوں کی ملا کر بنائی گئی اوک یا اوکھ، لپ۔
"ملکہ دوراں نے اپنے ہاتھ سے دال کی سات لبیں بھر کر پہلے لگن میں ڈالیں۔"      ( ١٨٨٥ء، بزم آخر، ٣٢ )
٩ - [ تصوف ]  کلام معشوق۔ (مصباح التعرف)۔