شیر

( شیر )
{ شیر (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : شیرنی [شیر (ی مجہول) + نی]
جمع ندائی   : شیرو [شے + رو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شیروں [شے + روں (و مجہول)]
١ - ایک قومی الجثہ ہلکے پیلے رنگ کا درندہ جس کے جسم پر سیاہی مائل آڑی ترچھی دھاریاں ہوتی ہیں اس کے دانت اور پنجوں کے ناخن لانبے ہوتے ہیں، بیشتر ایشیا کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے اور اسے جنگل کا بادشاہ کہتے ہیں، شکاری، ہاتھی یا اونچے درخت پر بیٹھ کر اسکا شکار کرتے ہیں، باگھ، اسد، ضیغم، شیر ببر۔
"تین افریقی شیشے کھول کر شیر کو دیکھ کر زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔"      ( ١٩٨٧ء، آجاؤ افریقہ، ١٠٩ )
٢ - پرنالے کا منہ جو شیر کی شکل کا بنایا جاتا ہے۔
 سگِ و درباں سے جو بچتا ہوں اس کوچے میں شیر کوٹھے سے اوتر آتا ہے پرنالے کا      ( ١٨٧٠ء، دیوانِ اسیر (مظفر علی)، ٩١:٣ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع ندائی   : شیرو [شے + رو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شیروں [شے + روں (و مجہول)]
١ - بہادر، دلیر، جرأت مند۔
 تم جاؤ گے تو باز نہ آئیں گے اہل شہر حملہ کریں گے مل کے وہ سب ایک شیر پر      ( ١٩٨١ء، شہادت، ١٣٥ )
٢ - نڈر، بے خوف، شہ پایا ہوا۔
"اسی ملائمت نے تو ان آدمیوں کو شیر بنا دیا ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٣٥:١ )