بحر

( بَحْر )
{ بَحْر }
( عربی )

تفصیلات


بحر  بَحْر

عرب یزبان میں ثلاثی مجرد کے باب 'فتح یفتح' سے مصدر ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء میں 'حسن شوقی' کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : بَحُور [بَحُور]
جمع غیر ندائی   : بَحْروں [بَح + روں (واؤ مجہول)]
١ - (دریا) سمندر، خلیج، کھاڑی۔
 تحریر اس کی بحر فصاحت کی موج تھی تقریر اس کی چشمۂ آب ز لال تھا      ( ١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ٨٨:٢ )
٢ - جنگی بیڑا جس میں کئی چھوٹے بڑے جہاز ہوں، کاروان جہاز و کشتی، بحریہ۔
"اسکندر کے پاس جہازوں کی بحر تھی جس پر وہ اپنی کل ما یحتاج کو لے جا سکتا تھا۔"      ( ١٩٠٧ء، 'مخزن' اگست، ٨ )
٣ - [ عروض ]  نظم کے انیس مقرر آہنگوں یا وزنوں میں سے ہر ایک (جو شعر کا وزن جاننے اور ٹھیک کرنے میں کام دیتے ہیں)۔
"کتاب نظم میں ہے زبان فارسی، مثنوی مولانا روم کی بحر میں ہے۔"      ( ١٩٣٠ء، مکاتیب اقبال، ٣٧٧:٢ )
  • sea
  • gulf
  • bay;  metre
  • verse;  flow
  • rhythm