چور

( چور )
{ چور (و مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


چورہ  چور

سنسکرت زبان کے لفظ 'چورہ' سے ماخوذ 'چور' اردو میں بطور اسم مستعمل ہے گاہے بطور صفت بھی استعمال ہوتا ہے۔ ١٣٩٢ء کو "بحرالفضائل (مقالات شیرانی)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چوروں [چو (و مجہول) + روں (و مجہول)]
١ - چرانے والا، چوری کا مرتکب، سارق، چوٹّا، دزد۔
"چوروں کا تعاقب کیا اور . پکڑ کر . پولیس کے حوالے کر دیا چور کے دوسرے ساتھی کی گرفتاری جلد متوقع ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، جنگ، کراچی، ٢٤ فروری، ٢ )
٢ - زخم جو اوپر سے اچھا ہو جائے لیکن اس کے اندر مواد باقی رہے، ناسور، گپت گھاؤ، اندر ہی اندر پکنے والا زخمی۔
 یہ ہاتھ باندھ کے کہتا ہے دل کے زخم کا چور حضور یاد ہیں سب ہتکنڈے حنا کے مجھے      ( ١٩٣٢ء، ریاض رضواں، ٣٤٢ )
٣ - شمع کا ایک طرف سے پگھل جانا۔
"چوروں کے ڈر سے فتنہ بھی جاگتا رہتا ہے، چاند کی آنکھ بھی رات بھر کھلی رہتی ہے شام کے وقت شمع سے بھی چور آ لگتا ہے۔"      ( ١٩٢٨ء، سلیم پانی پتی، افادات سلیم، ٦٠ )
٤ - بدگمانی، بدظنی؛ برائی، اندیشہ، خوف و خطر، مکر و دغا۔
"وینا ناتھ کے دل میں چور بیٹھا ہوا تھا، گوری کو اس نے شریک راز نہ کیا۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، زادراہ، ٨٢ )
٥ - وہ سفیدی جو مہندی رچنے میں رہ جائے، دزدحنا۔
 چور بن کر رہ گیا زخموں میں دل کے مل گیا واہ رے دزد حنا صد آفریں صد آفریں      ( ١٩٠٧ء، راسخ دہلوی، دیوان، ١٧٦ )
٦ - کھیل میں وہ لڑکا جس سے دوسرے کھلاڑی دانو لیتے ہیں چور لڑکے کو انھیں چھونا یا ڈھونڈنا پڑتا ہے وہ جسے چھو لے یا پکڑ لے وہ لڑکا چور ہو جاتا ہے۔ چور کے ساتھ خاص طرح کا برتاؤ بطور سزا کیا جاتا ہے اسے کوئی شرم کا کام کرنا یا اپنی پیٹھ پر چڑھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا پڑتا ہے۔
"سنیے کھیل کیونکر کھیلا جاتا ہے وہ بچارا چور بچہ سر جھکا کر زمین پر بیٹھ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر کے داہنا ہاتھ زمین پر پھیرنے لگتا ہے۔"      ( ١٩٢٨ء، کھیل پچیسی، ٥ )
٧ - خفیہ درز یا سوراخ (چھت یا دیوار وغیرہ میں)۔
"چھت کا چور۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ٥٤٤:٢ )
٨ - تاش یا گنجفے کا وہ پتا جسے کھلاڑی سے چھپائے رکھتے ہیں۔
 گنجفہ کھیلنے میں سرخ کی پتی نہ چھپاؤ چور لینا ہے ابھی رنگ حنا سے ہم کو      ( ١٨٥٢ء، کلیات منیر، ٤٧٤:٢ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - رازدار، درپردہ مصروف عمل، خفیہ کام کرنے والا۔
 وہ ہے اس چور کی طرح سے مندر میں حفاظتاً جو بیٹھے      ( ١٩٢٨ء، تنظیم الحیات، ٢١١ )
٢ - وہ جس کو کسی کام کے کرنے میں جھینپ ہو، سستی کرنے والا، جی چرانے والا، احتراز کرنے والا۔
"میں بچپن سے پڑھنے کا چور ہوں۔"      ( ١٩٥٢ء، نقش فرنگ، ٤١ )
٣ - خطاوار، مجرم؛ شرمندہ۔
"میرے دل میں ایک تیر سا لگا اور میں چور سی بن کر رہ گئی۔"      ( ١٩٣٤ء، سرگزشت عروس، ١٩٧ )