درد

( دَرْد )
{ دَرْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ پہلوی زبان میں 'درت' استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٣٨٠ء کو شرف منیری کے ہاں بحوالہ "مقالات شیرانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دَرْدوں [دَر + دوں (و مجہول)]
١ - وہ احساس (جو کسی خارجی یا داخلی سبب سے) جسم کے غیر طبعی ہونے کی حالت میں قوت لامسہ یا قوت حاسہ کے ذریعے تکلیف کی صورت میں پیدا ہو، ٹیس، دکھن، چمک۔
"زخم یا خراش کا درد اس وقت تک کم نہیں معلوم ہوتا جب تک کہ اس کے لیے کچھ کیا نہ جائے۔"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں (ترجمہ)، ٤١١ )
٢ - (ذہنی یا روحانی) دکھ، تکلیف، رنج و الم، غم (غم عشق)۔
 میں ہمہ عشق، ہمہ درد، ہمہ محرومی آج اعلان بغاوت ہے مری محکومی
٣ - سوز و گداز، اثر، کشش۔
"یوں تو گانے والیاں بہت سنیں مگر جو درد اختری بائی کی آواز میں پایا کسی دوسری میں نہیں پایا۔"      ( ١٩٦٦ء، مہذب اللغات، ٤٨٧:٤ )
٤ - رحم، ترس۔
 درد والا کوئی مل جائے تو کچھ قدر بھی ہو آپ بے درد ہیں کیا درد جگر جانیں گے      ( ١٩١٨ء، سید عبدالسلام جے پوری، دیوان (ق) )
٥ - محبت، لگاؤ؛ جذبۂ ہمدردی؛ پاس۔
 ترے درد نے دیا ہو جسے اٹھ کے خود سہارا اسے کیا ڈبو سکے گا غم زندگی کا دھارا      ( ١٩٥٧ء، نبض دوراں، ٢٩٧ )
٦ - بیماری، روگ، علالت۔
"سب دردوں میں زیادہ سخت بغل کا روگ ہے۔"      ( ١٨٦٤ء، مذاق العارفین، ٢٧٦:٣ )
٧ - سودا، جنون۔
 شیریں کے لیے تیشہ زنی اس نے نہیں کی فرماتے ہیں وہ درد تھا فرہاد کے سر میں      ( ١٩٠٥ء، داغ، یادگار داغ، ٥٤ )
٨ - [ عورات ]  دردِ زہ۔ (نوراللغات)
  • Pain
  • ache;  affliction;  pity
  • compassion
  • sympathy;  affection