سیاہ

( سِیاہ )
{ سِیاہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ اُردو میں داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اُردو میں سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو 'کلیات سراج" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - سفید کی ضد، کالا
"اس کے ساتھ ساتھ سیاہ ڈاڑھی والا ایک لنجا گائیڈ چل رہا تھا۔"      ( ١٩٨١ء، اکیلے سفر کا ایک مسافر،١٠١ )
٢ - بے روشنی، تاریک۔
 کیا رات کو پوچھتے ہو انجم دن بھی ہے یہاں سیاہ اپنا      ( ١٩٨٣ء، کوئے ملامت، ٢٢١ )
٣ - بُرا، منحوس، زبوں، خراب
"مگر تعصب کے سیاہ بھوت کے سر پر مسلط ہوتے ہی اس کی حالت بالکل بدل جاتی ہے۔"      ( ١٨٩٣، بست سالہ عہد حکومت، ١٦٥ )
٤ - باعثِ ننگ، شرمناک۔
 میں گو کہ حسن سے ظاہر میں مثلِ ماہ نہیں ہزار شکر کہ باطن مرا سیاہ نہیں      ( ١٨١٦ء، دیوانِ ناسخ، ٥٧:١ )
٥ - گناہوں سے پُر، داغدار۔
 سمن بروں سے غنیمت ہے رسم و راہ رہے اگر سِیاہ ہے فردِ عمل سیاہ رہے      ( ١٩٥٠ء، ماہ نو، خاص نمبر،١٩٥ )
٦ - کالے رنگ کے بچھو کی ایک قسم جو بہت زہریلا ہوتا ہے اور دم اُٹھا کر چلتا ہے۔
"بچھو تین قسم پر ہوتا ہے ایک وہ جو دم اُٹھا کر دوڑتا ہے اور وہ نوطور پر ہے، (١)سکری، (٢)زرد. (٧)سیاہ، (٨)دردناک۔"      ( ١٩٢٦ء، "خزائن الادویہ، ٣٣٥:٢ )
٧ - کبوتر کی ایک قسم نیز اس کا رنگ۔
"سیاہ اور زرد کے میل سے سرمئی پیدا ہوا۔"      ( ١٨٩١ء، رسالہ کبوتر بازی، ٦ )
٨ - جمشید کے پیالے پر چوتھی لکیر۔ (اسٹین گاس؛ جامع اللغات)
  • Black;  Unfortunate
  • bad