دم

( دَم )
{ دَم }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا سب سے پہلے ١٥٩١ء کو "وصیت الہادی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - سانس، نفس۔
 ذرا سی کشمکش میں بھی یہ ظالم ٹوٹ جاتے ہیں مرے دم کی نزاکت ہے تمہارے عہد و پیماں میں      ( ١٩١١ء، ظہیر دہلوی، ٩٦:٢ )
٢ - سانس لینے کا عمل میں اندر جانے والا یا باہر آنے والا سانس۔
"اس کی بندگی قرب اور سعادت دارین کا سبب پر یک دم جو نیچے جاتا ہے ممد حیات اور جو اوپر جاتا ہے مفرح ذات ہے۔"      ( ١٨٥٥ء، ترجمہ گلستان، ١ )
٣ - لمحہ، آن، پل، وقت ہنگام، موقع۔
 منظر دھواں دھواں ہے طبیعت اداس ہے اک کم سخن نظر، دم رخصت داس ہے      ( ١٩٧٢ء، ناصر کاظمی، (برش قلم)، ١٢٩ )
٤ - ہستی، وجود، ذات، طفیل۔
 مدینے والے کے دم سے روشن ہے شمع توحید دو جہاں میں زباں پہ بعد از خدا جب آیا مدینے والے کا نام آیا    ( ١٩٨٣ء، حصار انا، ٣١ )
٥ - نفر، متفس۔
"سودا سلف بازار سے لے آتا ہوں گھر والی کباب تیار کر دیتی ہے۔ ہم بس دو ہی دم ہیں۔"    ( ١٩٦٧ء، اُجڑا دیار، ١٢٢ )
٦ - تلوار، خنجر یا نیزے کے کانٹے یا تراشنے والے آلے کی دھار۔
 کاسہ یسان جہاں کی رگِ جاں کے حق میں دم شمشیر ہے اس شیر خدا کا ایماں      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٨٢٦ )
٧ - سانس لینے کی قوت، نالہ و آہ کرنے کی سکت۔
 ارمان کہاں ضعف میں تاثیر الم کے لالے ہیں پڑے اب تو ہمیں آہ کے دم کے      ( ١٩٤١ء، کلیات فانی، ٤٠٦ )
٨ - قوت، توانائی، زور، سکت۔
 محبت کے بندھن یہ کچے سے دھاگے بڑا دم بڑا زور رکھتے تھے آگے    ( ١٩٥٨ء، تارپیراہن، ٢٥٧ )
٩ - مشینری، کل پرزوں کی طاقت، سہارا کارآمد ہونے کا عمل۔
"اس قسم کے بیرنگ . میں اتنی طاقت اور دم نہیں کہ ان حالات میں زیادہ دیر تک کام دے سکیں۔"    ( ١٩٤٩ء، موٹر انجینئر،٣٩ )
١٠ - حوصلہ، ہمت۔
 لکھے مریض کو نسخہ جو اپنی جانب سے یہ کب دماغ میں اس کم دماغ کے دم سے      ( ١٩٨٢ء، ط ظ، ٩٠ )
١١ - مضبوطی، اصل حالت پر آجانے کی طاقت۔
"وہ انگلیوں کا خلقی نیچرل چم و خم چستی، لچک اور دم۔"    ( ١٩١٥ء، پیار دنیا، سجاد حسین، ١٠ )
١٢ - مضبوطی کپڑے یادوائی کی۔ (پلیٹس؛ جامع اللغات)
١٣ - فریب، دھوکا، جھانسا۔
 اژدھا توپ ہے دم اس کا ہے وہ ضرب مثل ساتوں افلاک کو گلی کی طرح جائے نگل      ( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٩ )
١٤ - سیٹی یا کسی خول دار شے میں پھونک مار کر آواز نکالنے کا عمل مراد: کوئی دعا یا منتر وغیرہ پڑھ کر پھونکنے کا عمل؛ دعا، جادو جو پھونکا جائے۔
 زندہ جب خلقِ خدا صور کے دم سے ہو گی رونق اس بزم کی حضرت کے قدم سے ہو گی    ( ١٨٧٢ء، محامد خاتم النبین، ١٠٧ )
١٥ - [ مجازا ] حضرت عیسٰی علیہ اسلام کا معجزہ جس میں وہ قم باذن اللہ کہہ کر (خدا کے حکم سے) مردوں کو جلاتے تھے۔
"ہم ذات کی تفسیر شیاطین کی پھونک اور دم سے بھی کی گئی ہے۔"    ( ١٨٦٦ء، تہذیب الایمان (ترجمہ)، ١١٤ )
١٦ - ایک وقت میں رکے بغیر چلنے کا عمل جس کے بعد وقفہ آتا ہے۔
"سانڈنیوں کا سلسلہ جن کے سو سو کوس کے دم۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ١٧٣ )
١٧ - سلگے ہوئے تمباکو کو منہ سے کھینچنے اور پھر دھوئیں کے ساتھ خارج کرنے یا نکالنے کا عمل، کش۔
"چرس کا دم یا افیم کا الٹا نگل کے جھومتے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٣٨ء، مرزا حیرت، حیات طیبہ، ٢٧٦ )
١٨ - پانی کا گھونٹ۔ (فیروز اللغات؛ پلیٹس)
١٩ - حسرت یا آرزو کا اظہار، دعا، فریاد۔
 یا اپنے نہیں ہے جم میں تاثیر یا اٹھ ہی گیا اثر فغاں سے      ( ١٧٩٤ء، اثر دہلوی، دیوان، ٤٥ )
٢٠ - بھٹّی یا تندور کی ہوا۔ (پلیٹس؛ جامع اللغات)
٢١ - غرور، تکبر، ضد، ہٹ۔
 فاطمہ کا تو ہے دم سے پر ترا ہے کرم ہے تو ذوی الاحترام یاامام یاامام      ( ١٥٩١ء، سروری (قدیم اردو مراثی، ٨٧ )
٢٢ - [ مجازا ]  یاد خدا۔
 ولیاں میں نہ تجہ سار کوئی کم ہوا ہر یک شے میں تجہ یار کا دم ہوا      ( ١٩٨٧ء، محی الدین نامہ (قلمی نسخہ)، ١ )
٢٣ - سالن یا چاولوں کی دیغ یا دیخچی کی بھاپ بند کرنے کا عمل جو سالن یا چالوں کو بھاپ سے کی حرارت سے گلانے کے لیے کیا جاتا ہے، دم پخت۔
"چاپ گل گئی ہوں تو اتار لیجیے نہیں تو تھوڑی دیر کے لیے ڈھانپ دیجیے تاکہ دم میں گل جائیں۔"      ( ١٩٧٦ء، کھانا پکانا، ٧٥ )
٢٤ - [ تصوف ]  حرکت باطنی کو م کہتے ہیں یعنی حرکت ذات باری کو۔ (مصباح التعرف)
٢٥ - [ پارچہ بافی ]  بنائی کے وقت تانے کے تاروں کا اوپر نیچے کا ہر ایک حصہ جو بنائی میں باری باری تلے اوپر ہوتا ہے اصطلاحاً دم کہلاتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 171)
٢٦ - [ آتش بازی ]  آتش بازی کے زور یا عملی قوت۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 77:8)
٢٧ - [ موسیقی ]  تال کے بعد کا وقفہ۔
"چار تال اکتالہ اس میں تین ضرب پوری ایک خالی ہوتی ہے باقی حصے کو وقفہ اور دم کہتے ہیں۔"      ( ١٩٦٠ء، حیات امیر خسرو، ١٩٣ )
٢٨ - بطور لاحقہ، تراکیب میں مستعمل۔
 مولودِ سعید مریم طبع عیسی دم و گوہر یم طبع