اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ماتھے سے ٹھوڑی تک دونوں کنپٹیوں کے درمیان کا حصہ (کل یا جزو) چہرہ، صورت۔
رونا کیسا? ڈھانپ کے منہ اب میں آہیں بھرتا ہوں ڈرتا ہوں کہیں جاگ نہ جائے کوئی مرا ہمسایا
( ١٩٨٨ء، برگد ١٣٧ )
٢ - دونوں ہونٹوں کے بیچ کا سوراخ جس سے کھاتے ہیں، دہن، دہانہ، قسم۔
"اس سانپ سے مشابہہ جو اپنی دم کو اپنے منہ میں لیے ایک دائرے کو تشکیل دیتا ہے"
( ١٩٨٩ء، تنقید اور جدید تنقید، ١٩۔ )
٣ - زبان، جپھ، ہونٹ، دہن، تالو، حلق۔
"کبھی بہت خوشی میں آتے تو منہ سے بے اختیار گانے کے بول نکل جاتے"
( ١٩٨٩ء، آب گم، ١٣٦ )
٤ - ہونٹوں سے حلق تک پورا خلا، قصر، گہراؤ، گہرائی۔
"بڑھیا نے کھوپرے کو پہلے خود اپنے پوپلے منہ سے چبا چبا کر نرم کیا، پھر مُنہ سے مُنہ ملا کر بچی کے منہ میں ڈالا"
( ١٩٨٩ء، آب گم، ١١٢ )
٥ - وجود، دم، ذات، ہستی، شخصیت۔
جو تھی تمہارے دم سے بات وہ مجھے اب کہاں نصیب ایک تمہارے منھ سے تمہیں لاکھ تسلیاں نصیب
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ١٧ )
٦ - کسی چیز میں داخل ہونے کا سوراخ یا اس کا ابتدائی حصہ، دہانہ۔
"اگر برتن کا منھ بہ نسبت درمیانی حصے کے زیادہ چوڑا ہو تو وہ ڈھانچے کے اندر سے آسانی سے نکل سکتا ہے"
( ١٩١٦ء، گہوارۂ تمدن، ٨٥ )
٧ - [ طب ] زخم وغیرہ کا وہ حصہ جہاں سے وہ رستا ہے، پھوڑے یا زخم کا سوراخ۔
جذب سے تارِ رگ جاں نہ بنا لوں تو سہی منہ مرے زخم پہ گر نشتر فصّاد آیا
( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ٥٣ )
٨ - کھلے ہوئے ظرف وغیرہ کے اوپر کنارے۔
"نال کے بعد کا حصّہ پوری توپ کی لمبائی سے آدھا تھا اور منہ کے قریب اس کا دہانہ پانچ بالشت تھا"
( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٩٠٥:٣ )
٩ - (بوتل وغیرہ کی) گردن کے اوپر کے کنارے پر کا سوراخ۔
"مکھیاں اور کیڑے. جب مادہ پھول پر بیٹھتی ہیں تو ان کی ٹانگوں پر چمٹا ہوا زرگل مادہ پھول کی صراحی کے منہ میں داخل ہو جاتا ہے"
( ١٩٨٨ء، جدید فصلیں، ٤٩ )
١٠ - لب، ہونٹ، شفت۔ (فرہنگ آصفیہ)
١١ - ڈاٹ، ڈھگن لگانے کا سوراخ / جگہ۔
نہ توڑے کہیں خود ابل کر شراب کوئی کھول دے منہ خموں سے شتاب
( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٢٧١ )
١٢ - آہنی ہتھیار کی دھار، باڑھ۔
جوہر میں آبرو میں اصالت میں لاجواب وہ قد وہ خم وہ منہ کی صفائی وہ آب و تاب
( ١٨٧٤ء، انیس مراثی، ٢٠٤:١ )
١٣ - سیدھی طرف کا حصہ، سامنے کا رُخ۔
"اس کے ساتھ ہی گھوڑی بھی جدھر اس کا منہ تھا ادھر ہی سیدھی سرپٹ دوڑی"
( ١٩٤٤ء، رفیق حسین، گوری ہوگوری، ١٩١ )
١٤ - نوک، انی۔
لازم ہے تجھے قدر مرے زخم کہن کی بوسے دیے ہیں اس نے ترے تیر کے مُنہ پر
( ١٨٢٤ء، دیوان مصحفی (انتخاب رامپور ٨٤) )
١٥ - طرف، سمت، جانب، رُخ۔
پڑا ہوں میں کوچہ میں رہنے دے مجھ کو الٰہی ادھر مونہہ نہ ہووے صبا کا
( ١٧٩٨ء، دیوان میر سوز، ٤٦ )
١٦ - پاس، لحاظ، ملاحظہ، مروت، طرفداری۔
ساری محفل کی کج رُخی دیکھی اک فقط تھا ہمیں تمہارا مُنہ
( ١٨٩٨ء، دیوان مجروح، ١٥١۔ )
١٧ - حوصلہ، مقدرت، جرات، ہمت، طاقت، مجال، تاب۔
پورے نہ اترے آپ مگر اپنے قول میں ہے منہ کہ آپ مجھ کو یہ الزام دے سکیں
( ١٩٨٤ء، قہرعشق (ترجمہ)، ١١١ )
١٨ - قابلیت، ہنر، جوہر، خوبی، وصف، حیثیت، رتبہ، رسائی۔
کھینچے کس من ہسے تری مانی شبیہہ سر بجیت آگے تیرے بہزاد ہے
( ١٨٣٨ء نصیر دہلوی، چمنستان سخن، ٢١١ )
١٩ - قول، قرار، بات، (جیسے تم کس کے منہ پر جاتے ہو)
سو بار چلے آؤ چلے آنے میں کیا ہے تم منہ کی وفا کا کرو کچھ پاس وفا اور
( ١٨٩٧ء، کلیات راقم دہلوی، ٧٢ )
٢٠ - حق و استحقاق جو حسن عمل کی بنا پر پیدا ہو (گاہے طنزاً)
"سارے دن نسہ کھائے پڑے رہتے ہیں ان کا منہ ہے کہ دوسروں کی سکایت کریں"
( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٣٨٣:١ )
٢١ - توجہ، التفات۔ (نوراللغات، جامع اللغات)
٢٢ - لالچ، خواہش طمع (جیسے اس وکیل کا مُنہ بڑا ہے) (فرہنگ آصفیہ)
٢٣ - جو شش دہن، آبلہ ہائے دہن۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٢٤ - دروازہ، در، دوارا۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٢٥ - دریچہ، کھڑکی۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٢٦ - راہ، راستہ، گزر، نکاس، آمدورفت کی جگہ۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٢٧ - موری، موکھا۔
"غذا کی نالی لمبی اور بلدار ہوتی ہے اور اپنے دونوں سروں پر کھلی ہوتی ہے، اگلا سوراخ منہ کا اور پچھلا سوراخ موری کا روزن کہلاتا ہے"
( ١٩٦٥ء، معیاری حیوانیات، ٤٨:١ )
٢٨ - عزت، حرمت، قدرومنزلت۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٢٩ - بکارت، چہرہ، دوشیزگی، کنوارہ پن۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٣٠ - ناصیہ، پیشانی، آغاز، شروع، دیباچہ، عنوان، کسی چیز کا اوّل۔ (ماخوذ فرہنگ آصفیہ)
٣١ - تھوڑا بہت، کچھ، ذرا سا۔
"شوقین ہیں کہ کبھی اس دوکان پر ٹھہرے دو دو منہ نہیں بول لیے کبھی اس دُکان پر کھڑے ہو گئے اور مذاق کرنے لگے"
( ١٩٠٨ء، مخزن، فروری، ٤٥۔ )
٣٢ - سبب، باعث، وجہ، واسطہ، کارن جیسے تیرے منہ سے سب کا مان اٹھایا۔ (جامع اللغات، مہذب اللغات)
٣٣ - منھ بھر، جتنا منھ میں آئے، لقمہ وغیرہ۔
"کالی گھوڑی. کبھی دو ایک منھ گھاس کھالی اور کھڑی ہے"
( ١٩٤٤ء رفیق حسین، گوری ہو گوری، ١٨٦ )