سر

( سَر )
{ سَر }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم اور گاہے متعلق فعل اور حرف جار استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : سَروں [سَروں (واؤ مجہول)]
١ - جسم کا سب سے بالائی حصہ، کھوپڑی نیز گردن سے اوپر کا پورا حصہ۔
"خواجہ صاحب نے بڑے زور سے اپنا گول مٹول سر اثبات میں ہلایا، اور فرمایا، ٹھیک ہے، ٹھیک ہے میرا بھی ایسا ہی خیال ہے۔"    ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٢٢٦ )
٢ - ماتھا، پیشانی۔
 جھکاؤں کیوں نہ سر اس نقش پا پر اس میں اک سر ہے کہ آنکھوں کو مری وہ خاک پا کمل الجواہر ہے    ( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٢٨٩:١ )
٣ - کھوپڑی کے بال۔
 کیسا خود گم سر بکھیرے میر ہے بازار میں ایسا اب پیدا نہیں ہنگامہ آرا دل فروش    ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٧٨٠ )
٤ - کسی شے یا کام کا سب سے اہم حصہ۔
"جانو تم سب اے یارو کہ ایمان سر ہے، سب نیکیوں کا۔"    ( ١٨٧٣ء، کرامت علی، مفتاح الجنۃ، ١١ )
٥ - ذات، ہستی، شخص، جسم و جان کا مجموعہ۔
"پردیس میں اکیلی پڑی تھی سر کا وارث چل بسا تھا۔"    ( ١٩١٦ء، میلادنامہ، ١٧ )
٦ - ابتدا، مبدا، عنوان، آغاز۔
"جس کے سر صحفہ پر یہ عبارت ہے، میرا منہ سچ بولتا ہے۔"    ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات شبلی، ٥٧:٥ )
٧ - خاتمہ، اختتام، آخری حد۔
 قدم بڑھائے ہوئے آستیں چڑھائے ہوئے چلے چلو سر منزل سے لو لگائے ہوئے    ( ١٩٣٣ء، ذوالنورین، ٢٩ )
٨ - سرا، کنارہ، نوک۔
"لام کے ساتھ پیوند کرنے میں کاف کا سر باریک لکھا جاتا ہے جیسے کل۔"    ( ١٨٦٨ء، نظم پروین، ١٠ )
٩ - کسی چیز کا بالائی حصہ، چوٹی۔
 ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے    ( ١٩٠١ء، بانگ درا، ٤ )
١٠ - مالک، آقا، سردار۔
"یہ دوسرا چر کا تھا جو ان کو سر خاندان ہوتے ہوئے اپنے ہی خاندان والوں سے پہنچا تھا۔"      ( ١٩٣٥ء، عبرت نامہ اندلس، ٣٧٨ )
١١ - خیال، دھیان، دھن، سودا۔
 نہ رکھتا سر رنج و راحت فقیر تو پاؤں تلے اس کے ہوتا فلک    ( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ٦٣ )
١٢ - قصد، ارادہ۔
 تقویٰ اٹھا کے آج سے بالائے طاق رکھ توبہ سے باز آ جو سر ناؤ نوش ہے    ( ١٩١١ء، ظہیر دہلوی، دیوان، ١٢٠:٢ )
١٣ - خواہش، طلب۔
 یہ تو نہیں کہ مجکو سرمے کشی نہیں لیکن ابھی نہیں، مرے ساقی، ابھی نہیں    ( ١٩٥٤ء، آتش گل، ١٠٨ )
١٤ - ضرورت کی چیز، اسباب، سامان۔
 شوق ہر رنگ، رقیب سرو ساماں نکلا قیس، تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٤٤ )
١٥ - (بانک، بنوٹ، تیغ زنی) وہ وار جو سر پر لگایا جائے۔
"ہے شرط کہ نکالوں میان سے تلوار، طمانچہ یا ہرا بھنڈارا، سر، کمر، پالٹ، چاکی ہول، انی کا تماشا دکھا دوں۔"      ( ١٩٣٥ء، اودھ پنچ، لکھنو، ٢٠، ٤:٢، ٧ )
١٦ - تاش یا گنجفے کا وہ پتا جو کھلاڑی اس لیے چلتا ہے کہ دوسرے کھلاڑی (نمبروار) اپنا اپنا پتا کھیل سکیں۔
 گنجفے میں عشق کے مجھ سا نہیں کوئی جلد باز اس نے واں شمشیر کھینچی میں نے کہا سر لیجیے    ( ١٨٣٤ء، نیاز (فرہنگ آصفیہ) )
١٧ - مرتبے میں بڑھ کر پتا جیسے اکا، بادشاہ، ببیا۔ (ماخوذ : فرہنگ آصفیہ)
١٨ - [ پارچہ بافی ]  تانی کے کھونٹے جن پر تانی تنی جاتی ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں)
١٩ - (سوز خوانی) صاحب بستہ، وہ شخص جو سوز خوانوں کا سردار ہو۔ (نوراللغات)
٢٠ - فی کس۔
 ہر شخص کو خلق میں سر اسم اک روح ملی ہے، اوراک جسم    ( ١٩٢٨ء، تنظیم الحیات، ٣٦ )
٢١ - گھوڑے کی تعداد کے ساتھ بمعنی عدد۔
"ہر ایک قسم کی شے کے رقم کے ساتھ الفاظ تمیز کا لانا ضرور ہوتا ہے اس واسطے ان الفاظ تمیز کا ذکر کیا جاتا ہے۔ الفاظ تمیز : سر، اسمائے ممیز : اسپ    ( ١٨٦٨ء، اصول السیاق، ٣٤ )
٢٢ - [ ریاضی ]  کسی الجبرائی اظہار کے سامنے تحریر کیا ہوا کوئی عدد یا دوسرا معلوم عامل۔
"موج کی رفتار . کے سر (Coficient) کے جذر سے معلوم ہو سکتی ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، آواز، ١٢٠ )
٢٣ - [ شاعری ]  چاربیتہ کا مطلع۔
"چاربیتہ کا مطلع سر یا بند چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے اور پھر چار چار مصرعوں کی کئی "کلیاں" ہوتی ہیں۔"      ( ١٩٧٨ء، چاربیتہ، ٩ )
٢٤ - [ بطور سابقہ ]  (بعض اوقات مختلف معانی میں بطور سابقہ مستعمل ہے) برتری، تفوق، آغاز، شدت۔
"یہاں چند فارسی سابقے لکھے جاتے ہیں جو عام طور پر مستعمل ہیں . سر، سرخوش، سربلند، سرتاج، سررشتہ سرحد، سرکش وغیرہ۔"      ( ١٩١٤ء، اردو قواعد، عبدالحق، ١٩٠ )
٢٥ - ختم، خاتمہ۔
 نظر تو پڑی بیوفائی تری کہ سر آج تے آشنائی تری      ( ١٦٣٩ء، طوطی نامہ، غواصی، ٣٠ )
متعلق فعل
١ - ظرف زمان و مکان کے لیے، مترادف، میں، اندر، پر، منظرعام میں، موقع پر۔
 سرانجمن غنیمت ہے بتوں کی کم نگاہی کہ سکون دل پہ آتی ہے نظر سے بھی تباہی      ( ١٩٥٧ء، نبض دوراں، ٢٨٩ )
٢ - سرے پر، کنارے پر۔
 میخوار ایک رات میں پہنچے سرابد خم کیا کھلا کہ راہ گزار بقا کھلی      ( ١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٧٥ )
٣ - اوپر، پر۔
 کوئی بیٹھا تھا سر شاخ گلاب تتلیاں اڑاتی رہیں رخسار پر      ( ١٩٧٩ء، جزیرہ، ٧٤ )
٤ - کسی کے ذمے، کسی پر عائد۔
"تاہم یہ خیال دل سے نہ نکل سکا کہ اس معاملہ کی ساری ذمہ داری بلراج کے سر ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ١٧٣:١ )
٥ - (تحقیراً)خاک، پتھر، کچھ بھی نہیں۔
 مجھے تم دیکھ کر کیوں پوچھتے ہو حال کیسا ہے جب اتنا بھی نہ دیکھا تم نے تو کیا میرا سر دیکھا      ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، ١٨ )
١ - سروسامان کرنا۔
انتظام کرنا، بندوبست کرنا،"تاج الدین یلدوز نے غزنہ میں اپنی فرماں روائی کا سروسامان کر لیا"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ٧٤:٣ )
٢ - سر کرنا۔
انجام کو پہنچانا، طے کرنا (راستہ مہم وغیرہ) فتح کرنا، قابو میں لانا، مغلوب کرنا، جیتنا۔"وہ قلعہ ایسا مضبوط بنایا جائے کہ ہمارا بڑے سے بڑا حریف بھی اسے سر نہ کر سکے"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٤٣۔ )
شروع کرنا، بیان کرنا، آغاز کرنا۔ جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوہ ضعفِ دماغ سر کرے ہے وہ حدیث زلف عنبر بار دوست      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٦٤۔ )
شکار پر چھوڑنا (باز یا کتے وغیرہ کو)"ایسی جگہ میں سر کرنا میر شکار کا کام ہے"      ( ١٨٨٣ء، صیدگاہ شوکتی، ٨٨۔ )
داغنا، چلانا، فیر کرنا، پھینکنا (آتشیں یا آہنی اسلحہ وغیرہ) رات یوں تاریک تھی جس طرح مجرم کا ضمیر سر کیا شیطان نے عورت کی جانب ایک تیر      ( ١٩٣٢ء، فکرونشاط، ١٠٩۔ )
بال گوندھنا، مانگ چوٹی کرنا۔ (نوراللغات، فرہنگ آصفیہ، مخزن المحاورات)
تاش کے کھلاڑیوں میں سے ایک کا پتا ڈالنا (جس پر دوسرا، پھر تیسرا پھر چوتھا پتا ڈالتا ہے) پا گیا میں قتل کا ایما بت بے پیر کا سر کیا جو گنجفہ میں بازئ شمشیر کا      ( ١٨٤٩ء، نکہت (نوراللغات) )
سلگا دینا، کش لگانا (چلم کے لیے مستعمل)"تھوڑی سی چلم میں جما کر آگ پھٹک کر رکھی اور ان کو دی کہ لو بھائی سر کرو"      ( ١٨٩٠ء، طلسم ہوشربا، ٢٥٨:٤ )
ادا کرنا، عرض کرنا۔"بیگم صاحبہ کو بغیر دیکھے کئی گز لمبا چوڑا سلام سر کیا"      ( ١٩٣٢ء، اخوان الشیاطین، ٣١٣۔ )
کھولنا، وا کرنا۔ (مہذب اللغات)