حرف جار ( مؤنث - واحد )
١ - ساتھ۔ جیسے : بخیر و عافیت (خیریت کے ساتھ)، بآسانی (آسانی کے ساتھ)۔
"ہم لوگ یہاں بخیر و عافیت اور آپ کی خیر و عافیت خداوند کریم سے نیک مطلوب ہیں۔" "چشم تامل سے مطالعہ کرنے والے مسلمان پر یہ حقیقت بآسانی آشکار ہو سکتی ہے۔"
( ١٩٢٩ء، تسہیل القواعد، ضمیمہ، ٢٧ )( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٧٦ )
٢ - میں۔ جیسے : باجلاس (اجلاس میں)، بظاہر (ظاہر میں)۔
"باجلاس کونسل لکھا ہوا آرڈیننس ہے۔" "میں نہیں کہہ سکتی کہ کیا ہوا اور کیا ہو گا، بظاہر والد تمھاری طرف مائل ہیں۔"
( ١٩٣٧ء، دنیائے تبسم، ٦٤ )( ١٩١٢ء، شہید مغرب، ٦ )
٣ - طرف، جانب۔ جیسے : روبرو (چہرے کی طرف، سامنے)، رو بقبلہ (قبلے کی طرف منہ)۔
٤ - قسم۔ جیسے : بخدا (خدا کی قسم)؛ برب کعبہ (رب کعبہ کی قسم)۔
"واللہ آپ کا منہ کیا، ورنہ برب کعبہ اسی وقت کتے کا لہو پی لیتا۔" پوچھا اگر ان سے دل گم گشتہ کو اپنے کس ناز سے بولے بخدا کچھ نہیں معلوم
( ١٩١٥ء، سجاد حسین، حاجی بغلول، ٦٧ )( ١٩٠٣ء، سفینۂ نوح، ٧٦ )
٥ - مطابق، موافق۔ جیسے : بدستور (دستور کے مطابق)، بقول شخصے (کسی کے قول کے مطابق)۔
"شام کو بخار ذرا ہلکا ہوا مگر پھوڑے کی تکلیف بدستور تھی۔" "موکل نے دیکھا کہ . معشوقہ خوامخواہ . دوسروں کے نزدیک مریضہ سمجھی جاتی ہے اور ان کا مکنون خاطر کسی طرح پورا نہیں ہوتا، بقول شخصے کو لے کی سوداگری میں ہاتھ کالے۔"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢١١ )( ١٩٠٥ء، کایاپلٹ، ٥٢ )
٦ - سے، وجہ سے، سبب سے، غرض سے، ذریعے سے، جیسے : بپاس خاطر(خاطرداری کی غرض سے)، بفضل ایزدی (خدا کے فضل سے)۔
٧ - توسّل سے، برکت سے۔ جیسے
ہوا تیری درگاہ میں باریاب بموجب یزداں رسالت مآب
( ١٨٩٨ء، دعائے بزم، ٤ )
٨ - پر۔ جیسے : بجائے (جگہ پر)، بسروچشم (سر اور آنکھوں پر)۔
"بجائے نواب مرحوم کے محمڈن کالج . کا آنریری سیکرٹری . بنایا جائے۔" "جو آپ فرمائیں گے بسر و چشم قبول کروں گی۔"
( ١٩٠٨ء، مقالات حالی، ٧١:٢ )( ١٩٠٤ء، آفتاب شجاعت، ١١١١:٣ )
٩ - اتصال کے لیے (تنوع، احصا، یا تسلسل و تواتر کے معنی میں) جیسے : خودبخود، دم بدم، رنگ برنگ۔
١٠ - برابر، مساوی۔ جیسے : بقدر ضرورت (ضرورت کے مطابق)
"فرض کرو تم کو لڑکوں کی طرح اچھا لکھنا بھی نہ آیا تاہم بقدر ضرورت ضرور آ جائے گا۔"
( ١٩٦٨ء، مرآۃ العروس، ٣٧ )
١١ - لیے، واسطے۔ جیسے : بجنگ (جنگ کے لیے)۔
١٢ - زائد حسن کلام کے لیے۔ جیسے : بجز، بغیر۔
"ملک کو . رومیوں کے قبضے سے نکالنا ممکن نہ تھا، بجز اس کے کہ ملک میں قومی جوش پیدا کیا جائے۔" ہرچند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
( ١٨٨٧ء، سخندان فارس، ١٣٩:٢ )( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٦٩ )